ملکہ نورجہاں کا یوم وفات

0
56

لاہور کی ایک وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ یہ شہر مغل عمارات کا ایک بڑا تاریخی ورثہ رکھتا ہے۔ ان میں قلعہ لاہور، بادشاہی مسجد، شالامار باغ اور متعدد مقابر شامل ہیں۔

لاہور شہر سے باہر مغلوں کے شاہی ذوق کی عکاسی کرنے والی ایک جگہ اور بھی ہے، جسے اس حوالے سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، یہ ہےدریائے راوی کے کنارے وہ مقام جسے مغلیہ دَور میں دریا پار کرکے کشمیر یا کابل جانے یا قریبی شیخوپورہ میں ہرن کی شکار گاہ پہنچنے سے قبل سستانے کے مقام یا پڑاؤ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

کسی زمانے میں یہ شاہدرہ سایہ دار گھنے درختوں اور سرسبز روشوں والا باغ، ”باغِ دل کشا“ تھا، جہاں شاہی ہاتھی، گھوڑے دکھائی دیتے اور شاہی خاندان کے افراد سیر کیا کرتے تھے۔ البتہ اب یہاں صرف تین مقابر باقی ہیں، جن میں سے دو مقبرے مغل بادشاہ نورالدین جہانگیر اور آصف جاہ کے ہیں۔ پہلوئے شاہ میں تیسرا مقبرہ وہ ہے، جس کے لیے کبھی ساحر لدھیانوی نے لکھا تھا:

پہلوئے شاہ میں دختر جمہور کی قبر
کتنے گم گشتہ فسانوں کا پتہ دیتی ہے
کتنے خوں ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب
کتنی کچلی ہوئی جانوں کا پتہ دیتی ہے

اداس فضاؤں میں اس ویراں اور خاموش مرقد میں مدفون ہستی جسے ساحر لدھیانوی نے ”دختر جمہور“ قرار دیا کوئی بے بس و لاچار خاتون نہیں بلکہ سلطنت مغلیہ کی اپنے وقت کی طاقتور ترین خاتون تھی، جس نے اپنی ذہانت اور ذکاوت سے مغل سلطنت پر کئی عشرے حکومت کی۔

اس خاتون کی طاقت و اختیارات کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ یہ واحد خاتون تھی ،جن کے نام کا سکّہ مغلیہ دَور میں جاری ہوا اور شاہی مہر پر، جس کا نام کندہ تھا۔ یہ ملکہ ہندوستان نورجہاں کا مقبرہ ہے، جس کے بارے میں سٹینلے لین پول نے History of India میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”یہ ایرانی شہزادی، بادشاہ جہانگیر پر بے پناہ اثر انداز رہی، یہاں تک کہ جہانگیر کے ساتھ اس کا نام سکّوں پر جاری ہوابیشتر عہد جہانگیری میں اصل حکومت ملکہ نور جہاں کی رہی۔ اُس نے جہانگیر کے دل پر ہی نہیں بلکہ اصل تاج و تخت پر بھی حکومت کی اور جہانگیر کی سیاسی و سماجی زندگی پر اثر انداز رہی۔

قندھار میں پیدا ہونے والی ایرانی النسل مہر النسا، جسے شہنشاہ جہانگیر نے شادی کے بعد ”نورِ محل“ اور پھر ” نورِجہاں“ کا خطاب دیا ملکہ ہندوستان بنی اور مغل سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی۔ لاہور ہی وہ شہر ہے ،جہاں مہر النسا اور جہانگیر کی شادی ہوئی، یہیں ملکہ نے اپنے شوہر کا مقبرہ تعمیر کروایا، قریبی باغات بنوائے، قلعہ لاہور میں اضافے کیے اور زنانہ کوارٹرز تعمیر کروائے۔ نورجہاں دَورِ مغلیہ کی واحد ملکہ تھی ،جس نے اپنی بیشتر زندگی لاہور میں گزاری ،جب کہ باقی تمام زیادہ تر مغل دارالسلطنت آگرہ اور دہلی میں مقیم رہیں۔

مہر النساکے دادا ایرانی شاہ کے دربار میں ملازم تھے جب کہ اس کے والد غیاث بیگ، مغل بادشاہ اکبر کے دَور میں ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے اور شاہی دربار میں ملازمت اختیار کی۔ یہاں میں مہر النسا کی شادی ترک النسل علی قلی بیگ سے انجام پائی، جسے بعد ازاں شیر افگن کا خطاب دے کر بنگال میں جاگیردار تعینات کر دیا گیا۔ گورنر بنگال اور جہانگیر کے رضاعی بھائی قطب الدین کو ایک تنازع میں شیر افگن کے ہاتھوں قتل ہوئے، جس کے نتیجے میں گورنر کے محافظوں نے شیر افگن کو ہلاک کر دیا۔

مہر النسا اور اس کی بیٹی کو آگرہ کے شاہی حرم میں بھجوا دیا گیا، جہاں وہ مغل شہنشاہ اکبر کی بیوہ رقیہ سلطان بیگم (جو مرزا ہندال کی بیٹی تھی) کی خدمت پر مامور ہوئیں۔ یہیں نو روز کے تہوار پر مہر النسا کا سامنا بادشاہ جہانگیر سے ہوا اور بادشاہ نے اس 35 سالہ حسین، برجستہ گو اور ذہین بیوہ سے شادی کر لی جو مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

رفتہ رفتہ جہانگیر کو ملکہ نورجہاں پر اس قدر بھروسہ ہو گیا کہ وہ حکومتی معاملات میں اس سے مشورہ لینے لگا جو سیاست، معیشت، ثقافت اور انتظام میں مہارت رکھتی تھی۔ وہ جہانگیر کی بیسویں، مگر سب سے محبوب اور پسندیدہ بیوی تھی۔ وہ غیر معمولی قابلیت، ذہانت اور حوصلے کے ساتھ سیاسی اختیارات کو استعمال کرتی رہی۔ اختیارات حاصل کرنے کے بعد اُس نے ایران سے ذہین سپاہی، علما اور شعرا ہندوستان بلوائے، جنہوں نے انتظامیہ اور مغل سلطنت کی ثقافتی زندگی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان ہی کے باعث ملکہ کا دربار میں اثر و رسوخ بھی بڑھ گیا۔

ملکہ نور جہاں کے والد غیاث بیگ اور بھائی عبدالحسن آصف خان کو دربار میں اہم عہدے دیے گئے جنہیں بالترتیب اعتماد لدولہ اور آصف جاہ کے خطابات سے نوازا گیا۔ نورجہاں کا خاندان اُس دَور کا طاقت ور ترین خاندان تھا۔ اعتماد الدولہ، جہانگیر کا وزیراعظم اور آرمی چیف بنا۔ آصف جاہ کو دربار میں اس وقت زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہو گئےجب ملکہ نے اپنی بھانجی ارجمند بانو بیگم (ممتاز محل) کی شادی اپنے سوتیلے بیٹے خرم سےکروا دی بعد ازاں ملکہ نورجہاں نے اپنےپہلے شوہرکی بیٹی، جس کا نام لاڈلی بیگم تھا،کی شادی جہانگیر کے چوتھے بیٹے شہریار سے کروا دی۔ یوں مستقبل میں دونوں شہزادوں خرم اور شہریار میں سے جو بھی شہنشائے ہند بنتا ملکہ نورجہاں کو مزید اگلی ایک نسل تک طاقت و اختیارات حاصل رہتے۔

شہنشاہ جہانگیر کے بڑے بیٹے خسرو نے جہانگیر کے خلاف بغاوت کر دی تو بادشاہ نے اسے اندھا کروا دیا تھا۔ خسرو کی مدد کرنے کے جرم میں مہرالنسا کے ایک بھائی کو بھی اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔ جہانگیر کا دوسرا بیٹا پرویز مے نوشی کا عادی تھا۔ جہانگیر کی ناسازی طبیعت اور بڑھاپے کے باعث ہندوستان پر عملاً مرزا غیاث، نورِجہاں، آصف جاہ اور شہزادہ خرم کی حکومت تھی۔

شہنشاہ جہانگیر تمام حکومتی اور محلاتی معاملات میں ملکہ نورجہاں پر بھروسا کرتا تھا، ملکہ دربار میں بادشاہ کے ساتھ موجود رہتی اور اسے جہانگیر کی طرف سے فیصلے کرنے کی آزادی حاصل تھی۔ شہزادہ خرم کی من مانی کی عادات کے باعث ملکہ اپنے داماد شہریار کو شہزادہ خرم پر فوقیت دینے لگی، جس پر خرم، ملکہ سے برافروختہ ہوگیا۔ خرم کے ملکہ کے احکامات ماننے سے انکار پر ہی قندھار سے بھی ہاتھ دھونے پڑے کہ اُس نے نورجہاں کے احکامات کے برعکس قندھار جانے سے انکار کردیا تھا۔

خرم کو شبہ تھا کہ اُس کی غیر موجودگی میں شہریار کو ولی عہد بنا دیا جائے گا یا ہو سکتا تھا کہ وہ میدانِ جنگ میں مارا جائے۔ اسی کے باعث، شہزادہ خرم نے جنگ لڑنے اور قندھار جانے کی بجائے باپ کے خلاف بغاوت کر دی اور قندھار پر ایرانیوں کا قبضہ ہو گیا۔ اس بغاوت کے وقت جہانگیر، کشمیر کے راستے میں تھا کہ شہزادہ خرم نے اُسے گرفتار کروا لیا۔ ملکہ نور جہاں نے مداخلت کی اور مذاکرات کے ذریعے جہانگیر کو رِہا کروایا۔ اس کشمکش میں فتح خرم کی ہوئی ،جسے بغاوت میں مغل افواج کے جرنیل مہابت خان نے بھی مدد دی تھی جو ایک عورت یعنی ملکہ نورجہاں کے اقتدار اور درباری سیاست سے متنفر تھا۔

اس واقعے کے بعد جہانگیر ایک برس ہی زندہ رہا اور کشمیر سے واپسی پر راستے میں وفات پائی۔ جہانگیر کو لاہور میں ملکہ نورجہاں کے ملکیتی وسیع و عریض باغ، باغِ دل کشا میں دفن کیا گیا۔شہنشاہ کی وفات کے بعد شہریار اپنی سوتیلی والدہ اور ساس ملکہ نورجہاں کی مدد سے تخت پر قابض ہو گیا۔ لیکن ملکہ نورجہاں کی ذہانت بھی اس کا اقتدار بچا نہ پائی، کیوںکہ اس موقع پر آصف جاہ نے بہن کی بجائے داماد کی حمایت کی۔ آصف جاہ کی افواج قلعہ کے اندر داخل ہو گئی اور اس جنگ میں شہریار مارا گیا۔

آصف جاہ کی فتح کے بعد شہزادہ خرم، ”شاہ جہاں“ کے لقب سے لاہور میں تخت نشیں ہوا۔ شاہ جہاں نے اپنے سارے بھائیوں کو آصف جاہ کے ذریعے قتل اور ملکہ نورجہاں کو ایک طرح سے نظربند کروا دیا۔ البتہ شاہی دربار کی مداخلت سے ملکہ کو رِہا کیا گیا اور اس کا سالانہ وظیفہ مقرر ہوا۔

شہنشاؤں کی طرح ملکہ پر بھی اقربا پروری، بداعمالی، بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے، درباری سازشیں بھی اس سے منسوب کی گئیں لیکن اس کے باوجود مغل دربار کو جو کچھ ملکہ نورجہاں نے دیا۔مثلاََکھانے، طرزِ لباس، طرزِ زندگی، تہذیب…. وہ سب بے مثل ہے۔

ملکہ نورجہاں مغل خواتین سے مختلف تھیں۔ وہ شاعرہ، زیورات اور لباس کی ڈیزائنر اور آرٹ سے شغف رکھنے والی ایک غیرمعمولی عورت جو عمر بھر تعمیرات و فنون کی سرپرستی کرتی رہیں۔ وہ جہانگیری عہد کی کئی فنی، تعمیری اور ثقافتی کامیابیوں کی تنہا ذمے دار تھیں۔ اس کی ڈیزائن کردہ تعمیرات میں کشمیر و آگرہ کے باغات، باغ ِدل کشا، اپنے والد اعتماد الدولہ، بادشاہ جہانگیر اور اپنے مقبرے شامل ہیں۔

اعتماد الدولہ کا مقبرہ مغلیہ عہد کی تعمیرات میں ایسی پہلی مثال ہے جس میں سفید سنگمرمر اور قیمتی پتھروں کا استعمال کیا گیا تھا۔اس سے قبل مغل عمارات میں سنگ سرخ کا استعمال کیا جاتا تھا جیسا کہ شہنشاہ ہمایوں اور جلال الدین اکبر کے مقبروں میں دکھائی دیتا ہے، بعد میں شاہ جہاں نے اسی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے آگرہ میں اپنی محبوب ملکہ اور ملکہ نورجہاں کی بھانجی ارجمند بانو (ممتازمحل) کا مقبرہ، تاج محل تعمیر کروایا۔

ملکہ کے بنوائے گئے باغات میں سے کچھ سرکاری شاہی تقریبات کے لیے مخصوص تھے، جب کہ دیگر عوام کے استعمال میں بھی آتے تھے۔ زنانہ حرم پر بھی ملکہ کا ہی حکم چلتا تھا، جس میں بیگمات، کنیزیں، بچے، خدّام، غلام، خواتین محافظات، خواجہ سرا وغیرہ شامل تھے۔ وہ زنانہ حرم کی زیبائش و آرائش کے ذوق، فیشن، زیورات،کھانوں پر اثر انداز رہی۔ نئی خوشبویات میں تجربات کیے گئے۔ نورجہاں ہی نے گلاب کا عطر ایجاد کیا۔\”چاندنی\” ملکہ نورجہاں کی اختراع ہے۔ دوسرے ممالک سے زیورات، ریشم، پورسلین درآمد کیے گئے۔

ملکہ نورجہاں نے ہی خواتین کے لباس کو برصغیر کے گرم موسم سے ہم آہنگ کیا، نہ صرف یہ بلکہ ،جہانگیر کے شانہ بہ شانہ شیر، چیتے اور دیگر جانوروں کا شکار کھیلا کرتی تھیں۔ ان کا نشانہ بے مثال تھا۔ شکار کا یہذکر \”تزک جہانگیری\” میں بھی ملتا ہے۔ ملکہ نورجہاں اور بادشاہ جہانگیر دونوں کو مصوری سے شغف تھا۔ جہانگیر کے پاس منی ایچر پینٹنگز کا ایک بڑا خزانہ موجود تھا ،جن میں دربار کی زندگی کی عکاسی کی گئی تھی اور شاہی مرد و خواتین اور باغات اور پرندوں کی تصاویر شامل تھیں۔دَورِ اکبری میں داستانِ امیر حمزہ، اکبر نامہ اور ہندو اساطیر کی تصویرکشی پر کام کا آغاز ہوا تھا اور ایرانی مصوروں کی بدولت برصغیر میں فن مصوری کو فروغ ملا۔

یورپیوں سے تجارت کا آغاز بھی ملکہ نور جہاں کے دَور میں ہوا۔ انہوں نے آنے والے تاجروں سے محصولات لینے کا آغاز کیا۔ داخلی اور خارجی تجارت میں دخل اندازی اور رکاوٹ سے بچنے اور سہولیات کے حصول کے لیے مغل حکومت کو ادائیگی کی جانے لگی۔ وہ بحری جہازوں کی مالک تھیں جو نہ صرف حج کے سفر بلکہ تجارت کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔ تجارتی تعلقات سے مغل سلطنت کی دولت و آمدنی میں اضافہ ہوا۔ مغل دارالسلطنت آگرہ، ملکہ نور جہاں کے ان اقدامات کے باعث ایک کاسموپولیٹن شہر اور تجارتی مرکز بن گیا تھا۔

اپنی گوشہ نشینی کے دَور میں بھی ملکہ نور جہاں فلاحی کاموں اور خواتین کی تعلیم اور دیگر معاملات میں دلچسپی لیتی اور یتیم لڑکیوں کو زمینیں اور جہیز عطا کرتی رہیں۔ شہریار کی بیوہ اور ملکہ کی واحد اولاد لاڈلی بیگم اس گوشہ نشینی میں ملکہ نورجہاں کے ساتھ رہتی تھی۔ ملکہ نے یہ وقت اپنے والد اور شوہر کے مقابر بنواتے ہوئے گزارا۔

ملکہ نورجہاں نے 68 سال کی عمر میں شہنشاہ جہانگیر کے دنیا سے گزرنے کے 16 برس بعد گوشہ نشینی اور تنہائی کے عالم میں وفات پائی اور اپنے تعمیر کروائے گئے مقبرے میں دفن ہوئیں۔ ملکہ کی واحد اولاد لاڈلی بیگم کی قبر بھی ان ہی کے پہلو میں ہے۔

ملکہ کا یہ مقبرہ کئی بار اُجڑا، اٹھارہویں صدی میں رنجیت سنگھ کے دَور میں سکھ گولڈن ٹیمپل کی تعمیر کے لیے نورجہاں اور جہانگیر کے مقبروں سے قیمتی پتھر اکھاڑ کر لے گئے۔ بعد ازاں انگریزوں نے مقبرے کے باغ سے ریلوے لائن گزاری اور انیسویں صدی میں اس مقبرے کے حصوں کو کوئلے کے گودام کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا۔ محکمہ آثارِقدیمہ کی غفلت کے باعث اب اس مقبرے کا قیمتی پتھر مخدوش و بوسیدہ حالت میں ہے۔

ملکہ نور جہاں فارسی زبان کی شاعرہ تھیں اور مخفی تخلص تھا، ان کا مزار اسی کے فارسی شعر کی تفسیر ہے جو ان کی لوحِ مزار پر رقم ہے۔
برمزارِ ما غریباں، نے چراغِ نے گلے
نے پر پروانہ سوزد، نے صدائے بلبلے

مجھ اجڑے ہوئے کے مزار پر چراغ (روشن) ہے نہ کوئی پھول (کھلے) ہیں۔ (اسی لیے) نہ یہاں پروانے کے پر جلتے ہیں نہ بلبل کی صدا سنائی دیتی ہے۔

Leave a reply