کوئٹہ میں اختر مینگل کے جلسے کے اختتام پر مبینہ طور پر خودکش حملہ میں5 جاں بحق اور 29 زخمی ہو گئے ہیں،

سیکیورٹی اداروں کی سختی اور حساس حالات کے باوجود بلوچ نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کوئٹہ میں جلسہ کیا۔ یہ جلسہ ان کے والد عطا اللہ مینگل کی چوتھی برسی کے موقع پر شاہوانی اسٹیڈیم، کیچی بیگ، سریاب روڈ پر منعقد کیا گیا تھا۔کوئٹہ میں دہشت گردی کا خطرہ تھا، دفعہ 144 نافذ تھی اس کے باوجود جلسہ کیا گیا، جس میں اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی جیسی شخصیات بھی شامل تھیں۔ جلسہ شام 4 بجے شروع ہوا اور تقریباً 9:30 بجے اختتام پذیر ہوا۔ تاہم، جب لوگ جلسہ گاہ سے باہر نکل رہے تھے، تبھی 9:45 بجے ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس حملے میں 5 افراد جاں بحق اور 29 زخمی ہوئے ہیں، جن میں کئی کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔

بلوچستان میں بھارت کی مداخلت اور پراکسی جنگ کی وجہ سے صورتحال انتہائی نازک ہے۔ بھارت معرکہ حق میں شکست کے بعد بلوچستان میں انتشار پھیلانے کے لیے اپنی تمام توانائیاں استعمال کر رہا ہے۔ اس دوران اختر مینگل کی جانب سے ریاست کی ہدایات کو نظرانداز کرتے ہوئے جلسہ کرنا اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو سیاسی پلیٹ فارم فراہم کرنا، سیکیورٹی حلقوں کے لیے ایک تشویش کا باعث ہے۔را بلوچستان میں عدم استحکام کے لئے ہر وقت تیار ہے، اس کو موقع چاہئے تھا اور یہ فراہم کر دیا گیا، دہشت گردی کی اس کارروائی کا مقصد بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنا اور سیاسی کشیدگی بڑھانا ہے۔ اسی نوعیت کا حملہ اس سال 30 مارچ کو لَک پاس میں بھی ہوا تھا،

ماہرین کا کہنا ہے کہ اختر مینگل اس طرح کے جلسوں اور سیاسی حربوں سے اپنی سیاسی حیثیت کو بحال رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ بلوچستان کے عوام کی اکثریت انہیں مسترد کر چکی ہے۔ یہ حملہ اور جلسہ دونوں ایک خطرناک سیاسی حکمت عملی کے تحت کیے جا رہے ہیں، جس کا مقصد بلوچ عوام میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنا ہے۔بلوچ عوام کی طرف سے اس طرح کے حملوں اور سیاسی کھیلوں کی شدید مذمت کی جا رہی ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ اختر مینگل کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے معصوم عوام کی جانوں کے ضیاع پر شرمندہ ہونا چاہیے۔

صحافی حسن ایوب کہتے ہیں کہ شاہوانی اسٹیڈیم، کوئٹہ میں بی این پی کے جلسے کے اختتام پر خودکش حملہ، 4 شہید، 8 زخمی۔اختر مینگل اور محمود اچکزئی جلسہ ختم ہوتے ہی نکل گئے اور صرف 15 منٹ بعد دھماکہ ہوا۔یہ محض اتفاق ہے یا منصوبہ بندی؟ 30 مارچ لَک پاس حملے کے بعد یہ دوسرا واقعہ ہے جس میں اختر مینگل "محفوظ” نکلے جبکہ عام بلوچ خون میں نہا گئے۔کیا عوامی ردِعمل سے مایوس اختر مینگل اب بے گناہ بلوچوں کے خون سے سیاست چمکانا چاہتے ہیں؟کیا یہ سب کچھ صرف اپنے سیاسی وجود کو زندہ رکھنے کی کوشش ہے؟بلوچستان مزید قربانیاں نہیں دے سکتا،عوامی تحقیقات اور جواب دہی ناگزیر ہے!

Shares: