قرآن کے نام پر سوشل میڈیاپر فراڈ
تحریر:ابو سیف اللہ
پاکستان میں قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے والے اور خصوصاً تعلیم دینے والے علماء و قراء عموماً تنگ دستی کے عالم میں صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ اس کے باوجود دین کا کام کرنے میں علماء کرام کی انتھک کاوشیں قابلِ تحسین ہیں۔
ملک عزیز پاکستان کے طول و عرض میں جہاں سرمایہ داروں کو لوٹنے کے لیے قسم قسم کی فراڈ اسکیمیں چل رہی ہیں، وہیں پہلے سے مجبور طبقے کو لوٹنے اور تباہ کرنے کے لیے بھی دھوکہ دہی کرنے والوں کی کمی نہیں ہے، جس پر کہا جا سکتا ہے کہ "مرے کو مارے شاہ مدار”۔
آج کل ایک نیا فراڈ آن لائن چل رہا ہے جس سے احباب کو آگاہی دینا مقصود ہے تاکہ وہ اس سے بچیں اور کہیں بہتری کے لیے سوچتے ہوئے اپنے ساتھ دھوکہ نہ کر بیٹھیں۔
جس طرح آن لائن فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر مختلف گیمز کے حوالے سے اشتہارات چلتے ہیں کہ ایک ہی دن میں اتنے پیسے کمائیں۔ یہ گیمز درحقیقت جوئے اور فراڈ پر مبنی ہوتے ہیں، اور ان کے اشتہارات سے شاید ہی کسی کو فائدہ ہوا ہو۔ زیادہ تر لوگ ان سے نقصان اٹھا کر افسوس کرتے نظر آتے ہیں۔
بالکل اسی طرح کے اشتہارات چل رہے ہیں کہ آن لائن قرآن پڑھانے والے قراء و علماء رابطہ کریں۔ ان اشتہارات کے ذریعے واٹس ایپ پر رابطہ کرنے والے افراد کو ایک گروپ میں شامل کیا جاتا ہے، جہاں صبح سے شام تک مختلف پرکشش پیشکشیں ہوتی ہیں، مثلاً آسٹریلیا، یورپ یا امریکہ میں اردو بولنے والے بچوں کو قرآن ناظرہ پڑھانے کے مواقع، جن کے بدلے 60 پاؤنڈ، 90 ڈالر یا اس سے زیادہ فیس کی پیشکش کی جاتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہوتی ہے کہ اس طالب علم تک رسائی کے لیے پہلے 3000 یا 4000 روپے ادا کیے جائیں۔ ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ طالب علم فیس ایڈوانس ادا کرے گا اور دو ماہ کی گارنٹی دی جاتی ہے۔
اپنی ضروریات کے مارے بے شمار قراء و علماء ان لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں اور اپنی جمع پونجی یا ادھار کے ذریعے یہ رقم بھیجتے ہیں، اس امید پر کہ اس سے انہیں مستقل آمدن کا ذریعہ میسر ہوگا۔ لیکن ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے؟
ایڈمن صاحب رقم بھیجنے کے بعد پیسوں کا اسکرین شاٹ طلب کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کون سی پیشکش خریدی جا رہی ہے۔ لیکن جیسے ہی رقم بھیج دی جاتی ہے، ایڈمن صاحب کوئی جواب نہیں دیتے۔ نہ فون کالز اٹھائی جاتی ہیں، نہ میسجز کا جواب دیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ واٹس ایپ پر پرائیویسی سیٹنگز کے ذریعے 24 گھنٹے پرانے میسجز خودبخود حذف ہو جاتے ہیں، اور بار بار رابطہ کرنے پر متعلقہ افراد کو بلاک کر دیا جاتا ہے۔
ایڈمن کی جانب سے میسجز کی عدم موجودگی کے دعوے اور پیمنٹ کے ثبوت کے انکار سے متاثرہ افراد بے بس ہو جاتے ہیں۔ اور ایسے افراد، جو پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، نہ تھانے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی قانونی کارروائی کر سکتے ہیں، کیونکہ ہماری پولیس بھی معمولی درخواست کے لیے پانچ سات ہزار کے بغیر کچھ نہیں کرتی۔
تحریر کے ساتھ ایک محترم کی جانب سے فراڈ کے شواہد کے طور پر اسکرین شاٹس موجود ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے فیس ادا کر کے فوری میسج کیا تھا۔ لیکن 24 گھنٹوں کے بعد تمام ٹیکسٹ خودبخود حذف ہو گئے، جس کے باعث فراڈ ثابت کرنا مشکل ہو گیا۔
یہ تحریر آپ احباب کو خبردار کرنے کے لیے ہے کہ آن لائن ان فراڈ کاریوں سے ہوشیار رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ایسے دھوکہ دہی کرنے والوں سے محفوظ رکھے۔ اور اگر کوئی صاحب اختیار سائبر کرائم سے تعلق رکھتا ہو تو عوام کو ایسے فراڈ سے محفوظ رکھنے کے لیے کارروائی کرے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے افراد کو ہدایت دے یا ان کے مظالم کا بدلہ دے۔