اسلامی معاشرے کی بنیاد قرآن کریم پر رکھی گئی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی وہ آخری کتاب ہے جس نے انسانیت کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف گامزن کیا۔ یہ کتاب صرف عبادات کا ضابطہ نہیں، بلکہ سیاسی، سماجی، اخلاقی، معاشی اور فکری زندگی کے تمام پہلوؤں کے لیے مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ مگر افسوس کہ آج کی امت مسلمہ اپنے ہی ضابطۂ حیات سے بے خبر ہو چکی ہے۔ ہم نے قرآن کو صرف ثواب، تعویذ، رسمِ قل، اور رمضان کی رسمی تلاوت تک محدود کر دیا ہے۔ جس کتاب نے غلاموں کو حکمران، جاہلوں کو معلم، اور بکھری قوم کو ایک قیادت عطا کی، آج ہم نے اُسی کتاب کو طاقچوں کی زینت اور دفتری فائلوں کا عنوان بنا کر رکھ دیا ہے۔ قرآن جسے اللہ نے "ھدیً للناس” قرار دیا، آج ہم نے اسے صرف "مردوں کی بخشش” کا ذریعہ بنا دیا۔

اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: "وقال الرسول يا رب إن قومي اتخذوا هذا القرآن مهجوراً” (اور رسول نے کہا: اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا — الفرقان: 30)۔ یہ شکایت آج کی امت مسلمہ پر پوری اترتی ہے۔ ہم نے قرآن کو صرف الفاظ کی سطح پر اپنایا، معنیٰ اور مقصد سے غفلت برتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج امت مسلمہ کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ مسلم ممالک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں، نوجوان نسل مغربی تہذیب کے فریب میں گم ہے، اسلامی تہذیب صرف ماضی کے صفحات تک محدود ہو گئی ہے، حلال و حرام کا شعور مدھم پڑ چکا ہے، قرآن کی زبان سے ناواقفیت عام ہو چکی ہے، اور فرقہ واریت نے ہمیں ایک جسم کے بجائے متصادم گروہوں میں بانٹ دیا ہے۔ سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ قیادت کے میدان میں ہم محروم ہو گئے ہیں، کیونکہ قیادت قرآن کے عدل، امانت، اور شوریٰ جیسے اصولوں پر استوار ہوتی ہے — جنہیں ہم نے فراموش کر دیا۔

اس زوال سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے: قرآن کی طرف واپسی۔ لیکن یہ واپسی صرف زبانی یا رسم و رواج کی نہیں، بلکہ شعوری، فکری، عملی اور اجتماعی سطح پر ہونی چاہیے۔ ہمیں قرآن کو صرف تلاوت کی نہیں بلکہ فہم اور تدبر کی کتاب بنانا ہوگا۔ ہر فرد روزانہ ترجمے کے ساتھ قرآن پڑھنے کی عادت اپنائے، اسے زندگی کے فیصلوں میں رہنمائی کا ذریعہ سمجھے۔ گھروں میں والدین قرآن فہمی کی مجلسیں منعقد کریں، بچوں کو محض قرأت نہیں، قرآن کی اخلاقیات بھی سکھائی جائیں۔ تعلیمی اداروں میں قرآن کا نصاب صرف ناظرہ کی حد تک نہ رہے، بلکہ تدبر، سیاق و سباق، اور عملی استنباط کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ ریاستی سطح پر عدل و انصاف کے وہی اصول لاگو کیے جائیں جو قرآن نے بیان کیے ہیں۔ قیادت، سیاست، معیشت، اور عدالتی نظام میں قرآن کی تعلیمات کو بنیاد بنایا جائے۔ میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر قرآن سے ربط کو فروغ دینے والی مہمات چلائی جائیں تاکہ نوجوان نسل دوبارہ قرآن سے جڑ سکے۔

تاریخ گواہ ہے کہ خلافت راشدہ کا عدل، اندلس کا علم و حکمت کا دور، اور صلاح الدین ایوبی کی قیادت ایسے ادوار تھے جن کی بنیاد قرآن سے جڑے رہنے پر تھی۔ جن قوموں نے قرآن کو تھاما، وہ دنیا کی قیادت پر فائز ہوئیں، اور جنہوں نے اسے چھوڑا، وہ غلام بن کر رہ گئیں۔ آج کا اسلامی سال کا آغاز ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم رک کر سوچیں، اپنا جائزہ لیں، اپنی کوتاہیوں پر نادم ہوں، اور قرآن سے اپنا رشتہ پھر سے جوڑیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہمیں "اقْرَأْ” — یعنی "پڑھ!” — کی صدا دوبارہ سننی چاہیے، کیونکہ یہی صدا انسانیت کے لیے بیداری کا پہلا اعلان تھی۔

آج امت مسلمہ کو صرف جلسوں، جلوسوں، اور نعروں کی نہیں بلکہ عملی رجوع کی ضرورت ہے۔ ہمیں قرآن کو اپنے انفرادی اور اجتماعی فیصلوں میں شامل کرنا ہوگا، اسے صرف مدرسے اور مسجد کی دیواروں تک محدود نہیں رکھنا، بلکہ بازار، عدالت، میڈیا، اور سیاست تک پھیلانا ہوگا۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہم ایک ایسی منتشر قوم بنے رہیں گے جو ماضی پر فخر تو کرے گی، لیکن حال میں خوابِ غفلت میں مبتلا رہے گی۔ لیکن اگر ہم نے قرآن سے دوبارہ جڑنے کا عزم کر لیا، تو وہ رب جو رحمٰن اور رحیم ہے، ہمیں نہ صرف معاف کر دے گا، بلکہ دوبارہ عزت، قیادت، اور بیداری عطا فرما دے گا۔

Shares: