قربانی کی فضیلت و اہمیت.تحریر چوہدری عطا محمد

0
209

تاریخ ِاور مذاہب کے مطالعے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ جتنی قدیم ہے، قربانی کی تاریخ بھی تقریباً اتنی ہی قدیم ہے،

ہم جو ہر عیدقرباں پر جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، یہ حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کی قربانی کی یاد گار ہے۔ اسی قربانی کی یادگار میں اہلِ ایمان ہر سال جانوروں کے قربانی کرتے ہیں

قربانی کی فضیلت و اہمیت

حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ رسول اکر م ﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال پابندی سے قربانی فرماتے تھے۔(مشکوٰۃ)

حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے
حضور اقدسﷺ نے فرمایا: بقرعید کے دن قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ کے نزدیک محبوب نہیں ہے اور بلاشبہ قربانی کرنے ولا قیامت کے دن اپنی قربانی کے سینگوں، بالوں اور کھروں کو لے کر آئے گا (یعنی یہ حقیر اشیاء بھی اپنے وزن اور تعداد کے اعتبار سے ثواب میں اضافہ ور اضافہ کا سبب بنیں گی اور (یہ بھی) فرمایا کہ بلاشبہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک درجہ قبولیت حاصل کرلیتا ہے ،لہٰذا خوب خوش دلی سے قربانی کرو۔ (مشکوٰۃ)

حضرت زیدبن ارقمؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسولﷺ یہ قربانیاں کیا ہیں؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ تمہارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، صحابہؓ نے عرض کیا، ہمارے لیے اس میں کیا ثواب اور اجر ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا : ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا، اگر اون والا جانور ہو (یعنی دنبہ ہو جس کے بال بہت ہوتے ہیں) اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اس کے بھی ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔ (مشکوٰۃ)مذکورہ احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا

عیدالاضحی کے دن قربانی کرنا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے، پس جو عمل محبوب حقیقی کو محبوب ہو، اسے کس قدر محبت اور اہتمام سے کرنا چاہیے، اس دن قربانی کرنا ہمیں اللہ سے کتنا قریب لے جائے گا اور ہم پر سے کتنی مصیبتیں ٹل جائیں گی، اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے،
اگر حالات حاضرہ کا زکر کیا جاۓ یعنی موجودہ دور کی بات کی جاۓ تو اس کے بالکل بر خلاف کہنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ ! قربانی کیا ہے یہ قربانی (معاذ اللہ) خوا مخواہ رکھ دی گی ہے، لاکھوں روپیہ جانوروں کے خون بہانے کی شکل میں لگا دیا جاتا ہے اور بڑے بڑے جانور اونٹ بیل اور بچھڑے گھر کے دروازے کے باہر نمائش کے لئے باندھ دئیے جاتے ہیں یہ عمل معاشی اعتبار سے نقصان دہ ہے، جانوروں کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے لہٰذا قربانی کرنے کے بجائے یہ کرنا چاہیے کہ جو لوگ غربت کے ہاتھوں بھوک اور افلاس کی زندگی بسر کر رہے ہیں ہیں، قربانی کے گوشت تقسیم کرنےکے بجائے وہ روپیہ پیسہ غریب کو دیا جائے، تاکہ اس کی ضروریات پوری ہوجائیں۔ یہ پروپیگنڈا اتنی کثرت اور اس۔ طرح کی مثالیں دے کر کیا جاتا ہے کہہ کچھ لوگ اس پر سوچنے اور عمل کرنے کے لئے بھی تیار ہوجاتے ہیں اب عید قربان کے نزدیک لوگ علماء حضرات سے پوچھتے نظر آتے ہیں کہ اگر ہم قربانی نہ کریں اور وہ رقم غریبوں میں تقسیم کردیں تو اس میں کیا حرج ہے؟یہ خودساختہ فلسفہ قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات کے صریح خلاف ہے۔اسلامی شریعت کے مطابق جیسا کہہ اوپر حدیث مبارکہ کا بھی زکر کیا ہے کہہ قربانی کے تین دنوں میں قربانی سے بڑھ کر اللہ کے نزدیک کوئی عمل محبوب اور پسندیدہ نہیں۔

قربانی سے ہمیں کیا درس ملتا ہے

قربانی ہمیں صبر وتحمل، برداشت اور ایثار کا سبق دیتی ہے، ہمیں ایک دوسرے سے محبتوں کو بڑھانا چاہیے اور صبرو استقامت کے جذبے کو عام کرنا چاہیے۔ اور اپنے ہمسایوں عزیزو اقارب اور آس پاس رئنے والوں کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنے اور ان کے حقوق کا خیال رکھنے کا درس دیتی ہے ۔

جو لوگ بھی صاحب استطاعت ہیں وہ اس کا خیال کریں کہ گائے اور اونٹ میں سات حصے جبکہ بکرا، دنبہ وغیرہ ایک حصہ ہے۔

قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں، ایک اپنا، ایک رشتہ داروں کا اور تیسرا غرباء اور مساکین میں تقسیم کردیں۔اور اس بات کا خوب خیال رکھا جاۓ کہہ زیادہ سے زیادہ گوشت ان گھروں تک پہنچے جن کے گھر سارا سال بہت کم گوشت پکتا ہے یا جو لوگ اپنی غربت اور مفلسی کے ہاتھوں گوشت جیسی نعمت سے اکثر اوقات محروم رئیتے ہیں۔
قربانی ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہہ سال کے ایک دن نہیں ہر روز ہمیں اپنی کمائی میں سے اپنی حیثیت کے مطابق کسی مستحق کی کسی نہ کسی ضرورت کو پورا کو پورا کرتے رہنا چائیے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو قربانی کے عمل سے سنت طریقہ سے گزرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تحریر چوہدری عطا محمد

@ChAttaMuhNatt

Leave a reply