وزیرخارجہ کا فسطائی نظریات روکنے کیلئے ایس سی اورکن ملکوں پرملکرکام کرنے پرزور
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ماسکو میں ایس سی او وزراء خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماسکو کے خوبصورت اور تاریخی شہر میں آپ سب کے ساتھ یہاں موجودگی میرے لئے باعث مسرت ہے۔ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ ہمارے ممالک کورونا وبا کے اثرات سے نکل رہے ہیں جس سے آج ہمیں یہاں مل بیٹھنے کا موقع میسرآیا ہے۔ میں وزیر خارجہ جناب لاوروف کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے وزرائے خارجہ کے اس اجلاس کی میزبانی فرمائی اور اپنی گرمجوش میزبانی سے نوازا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کورونا عالمی وبا نے ایک طرف دنیا بھر میں انسانوں کی زندگیوں اور معاش کو بری طرح متاثر کیا ہے تو دوسری جانب اس نے مشترک خطرات اور مسائل سے مل کر لڑنے کی اہمیت کو بھی دو چند کردیا ہے۔ کٹھن حالات ومشکلات کے باوجود ہم نے ایس سی او میں نفع مند اشتراک عمل جاری رکھا ہے جو روسی فیڈریشن کی قیادت میں یک جہتی اور باہمی تعاون کا مظہر ہے۔ ایس سی او کے اپنے قیام کے بیس سال مکمل کرنے کے موقع پر ہم علاقائی تعاون کو فروغ دے کر درپیش بحران کو ایک نئے امکان میں بدل سکتے ہیں تاکہ ایس سی او کی حقیقی صلاحیت کھل کر سامنے آئے۔ مئی اور جولائی 2020 میں ایس سی او وزرائے خارجہ وصحت کے ورچوئل اجلاس کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے کثیر الملکی، فیصلہ کن اور اشتراک عمل پر مبنی کاوشوں کی ضرورت اجاگر کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے نظام کو بروئے کار لاتے ہوئے خاص طورپر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو۔ایچ۔او) کے ذریعے اشتراک عمل میں سرفہرست کردار کیا جا سکتا ہے۔ ہم صحت عامہ کے ماہرین، سائنسدانوں اور محققین کو سلام پیش کرتے ہیں جو اس جراتمندانہ کاوش کے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کورونا وبا سے موثر انداز میں نمٹنے کے حوالے سے اپنے تجربات سے دنیا کو مستفید کرنے کے لئے تیار ہے جس کی بناءپر آج کورونا سے متاثرہ افراد اور اموات میں نمایاں کمی آچکی ہے۔ پاکستان اس بحران سے نمٹنے کیلئے چین کی طرف سے عالمی برادری بشمول پاکستان کو دیے گئے موثر تعاون کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتا ہے کہ چین نے اس مشکل صورتحال سے نبردآزما ہونے میں مالی اور تکنیکی مدد فراہم کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی وباءکے منفی معاشی اثرات سے نمٹنے کے لئے بھی یہی جذبہ دکھانا ہوگا۔ اس امر کو ذہن میں رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے ”عالمی سطح پر قرضوں کی ادائیگی پر سہولت کی فراہمی “ کی تجویز پیش کی تاکہ ترقی پزیر ممالک معاشی مسائل کی دلدل سے نکل سکیں اور انہیں صورتحال کا مقابلہ کرنے میں سہولت میسرآئے۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عالمی وباءکو سیاست کے لئے استعمال کرنا اور کسی بھی خطے، مذہب یا طبقے کو اس سے نتھی کرنا یا جھوٹ پر مبنی الزام دھرنا بھی غلط ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان ایس سی او شراکت داروں کے ساتھ مل کر یہ اعادہ کرنے میں شامل ہے کہ عالمی تعلقات کی استواری میں”شنگھائی جذبہ“ مرکزیت رکھتا ہے اور اس ضمن میں بنیادی اصول اورعالمی قانون کے معیارات ناگزیرہیں۔ دنیا آج تیزی سے طاقت کی کثیراطراف میں تقسیم ہورہی ہے۔ پرانی اور نئی طاقتوں کے ابھرنے سے دنیا میں مقابلے کی فضا پہلے ہی بین الاقوامی تعلقات کو نئی جہات سے ہمکنار کررہی ہے۔ توقع کے عین مطابق یہ عمل ہموار نہیں۔ کثیراالطراف، عالمی قوتوں اور مشترک ترقی کی قوتیں ایک طرف اور یک طرفہ سوچ، تنہائی پسند اور اپنی ذات تک محدود قوتیں دوسری جانب ہیں جن میں باہمی کشاکش نے بے انتہاء غیریقینی کی صورتحال پیدا کررکھی ہے۔ ہماری پختہ سوچ ہے کہ غیریقینی اور سفاک مسابقت کے اس ماحول میں ٹکراو کی جگہ تعاون کو عالمی سیاسیات کی رہنما قوت ہونا چاہئے۔ اس تناظر میں ایس سی او جیسے کثیرالملکی فورمز مشعل راہ اور امیدکی کرن ہیں۔ اقوام متحدہ کے قیام کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر ہم ایس سی او کے اس اصرار کی پرزور حمایت کرتے ہیں کہ عالمی امن اور سلامتی اور عالمی ترقی بڑھانے میں اقوام متحدہ کا مرکزی کردار ہونا چاہئے۔ ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاح کے اپنے اصولی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں اتفاق رائے کی راہ اپنائی جائے تاکہ سلامتی کونسل عوام کی زیادہ نمائندگی کے ساتھ جمہوری، موثر اور جوابدہی کے پیمانے پر تشکیل پائے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ترقی، معاشی نشوونما، غربت کا خاتمہ اور عوام کے سماجی معیار کی بہتری کے اہداف کے حصول کے لئے لازمی تقاضا دیرینہ تنازعات کا پرامن حل ہونا ہے۔ اس تناظر میں ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر ایمانداری سے عملدرآمد کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متنازعہ خطوں کے سٹیٹس کو تبدیل کرنے کے لئے ہر قسم کے غیرقانونی اور یک طرفہ اقدامات کی شدید مذمت اور پرزور مخالفت کرتے ہیں۔ ایسے یک طرفہ اقدامات امن وآشتی اور تعاون کا خطے میں ماحول پیدا کرنے کے ہمارے مشترک مقصد کے بھی منافی ہیں جن کی ڈٹ کر مخالفت کی جائے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پرامن اور مستحکم افغانستان خطے اور دنیا میں امن اور استحکام کے لئے ناگزیر ہے۔ پاکستان طویل عرصہ سے کہتا آرہا ہے کہ افغانستان کے تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں اور یہ کہ مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیہ ہی آگے بڑھنے کی واحد راہ ہے۔ مشترکہ ذمہ داری کے طورپر پاکستان نے افغانوں کی قیادت میں افغانوں کو قبول امن ومفاہمتی عمل کے لئے بھرپور کردار ادا کیا اور حمایت کی ہے۔ امریکہ اور طالبان میں امن معاہدہ اس سمت میں اہم اور نمایاں پیش رفت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افغان فریقین اس تاریخی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مل کر کام کریں تاکہ جامع، وسیع البنیاد اور سب کی شرکت کے مظہر سیاسی تصفیے کا مقصد حاصل ہوسکے۔ یہ انتہائی ناگزیرامر ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا جلد انعقاد ہو۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی نہایت ضروری امر ہے کہ اندر اور باہر سے ”خرابی“ پیدا کرنے والوں کے کردار سے خبردار رہا جائے جو نہیں چاہتے کہ افغانستان میں امن واستحکام واپس لوٹ آئے۔ بین الافغان مذاکرات کا عمل مشکلات سے پاک نہیں ہوگا۔ ارتکاز سوچ، صبر وتحمل، تسلسل اور غیرمتزلزل عزم سے ہی نتیجہ خیز کامیابی کے مقصد کو حاصل کرنا ممکن ہوسکے گا۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ افغان مہاجرین کی عزت ووقار کے ساتھ اپنے گھروں کو واپسی بھی امن مذاکرات کا لازمی حصہ ہونا چاہئے۔ افغان امن ومفاہمتی عمل میں مزید سہولت کے ضمن میں ہم ایس سی او افغان رابطہ گروپ میں مشاورت کے لئے منتظر ہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور انتہاءپسندی ہماری اولین ترجیح ہے جس سے ہم نبردآزما ہیں۔ ہمیں کسی ملک کو دہشت گردی سے متعلق الزامات کو اپنی سیاسی مہم کے لئے ذریعے کے طورپر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینا کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک، مذہب یا نسل کو موردالزام ٹھرائے۔ ہمیں علاقوں پر غیرقانونی قبضے اور وہاں استبداد میں رہنے والے عوام کے خلاف ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرنے والوں کی مذمت کرنا ہے اور انہیں جوابدہ ٹھرانا ہے۔ فسطائیت، عسکریت پسندی اور متشدد قوم پرستی کے خلاف فتح کی 75 ویں سالگرہ مناتے ہوئے ہمیں اعادہ کرنا ہوگا کہ انتہاءپسندی، دیگر اقوام اوراسلام سے نفرت وبیزاری کے رویوں کی آج کی دنیا میں کوئی گنجائش نہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم ایرانی جوہری معاملے پر مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کے موثر عمل درآمد کے ایس سی او شراکت داروں کے موقف میں شریک ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خلاءکو اسلحہ کی دوڑ سے بچانے، بائیولاجیکل ہتھیاروں کے کنونشن (بی۔ڈبلیو۔سی) اور انٹرنیشنل انفارمیشن سکیورٹی پر ایس سی او کا غوروخوض اس ضمن میں بحث کے لئے سود مند ہوگا اور ہمیں ان معاملات پر یکساں موقف اختیار کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ روک تھام اور تخفیف اسلحہ کے حوالے سے بڑھتے ہوئے مسائل سے نمٹنے کیلئے نئے قانونی ضابطوں کی فوری ضرورت ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ علاقائی شراکت داروں کے ساتھ قریبی روابط قائم کرنے یورپ وایشیائی معاشی اتحاد (ای۔ای۔یو) اور ’بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ (بی۔آر۔آئی) کے درمیان بڑھتے میلاپ کے ثمرات کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ایس سی او ایک فعال ادارہ ہے۔
بی۔آر۔آئی‘ کا ہراول منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) علاقائی رابطوں اور معاشی میلاپ کے ایس سی او کی سوچ کو فروغ دیتا ہے۔ انفراسٹرکچر نیٹ ورک اور توانائی منصوبوں، صنعتی پارکس کے امتزاج سے سی پیک پاکستان، خطے اور دنیا کے لئے معاشی خوشحالی کا باعث بنے گا۔ سی پیک کے تحت خاص طورپر معاشی اقتصادی زونز سرمایہ کاری کے لئے بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ہم بی آر آئی اور سی پیک سمیت ترقیاتی منصوبہ جات کو جیوپولیٹیکل تنگ نظر زاویوں سے نہیں دیکھتے بلکہ ان کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ سماجی ومعاشی ترقی ایس سی او کا ایک اور اہم پہلو ہے۔ غربت کے خاتمے میں وسیع تجربہ کے باعث پاکستان نے ایس سی او جوائنٹ ورکنگ گروپ اور غربت کے خاتمے کے لئے ’ایس سی او سینٹر آف ایکسیلنس‘ کے قیام کی تجویز دی ہے۔ ہم اس ضمن میں تمام ممبران کی حمایت کے پرشکر گزار ہیں۔ ہم ایس سی او یوتھ کونسل کا نیا رکن بننے پر اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ گزشتہ بیس برس میں ایس سی او ڈھانچے، وقار اور اثر کے لحاظ سے خاطرخواہ وسعت پاچکی ہے۔ ہم ایس سی او کے ذریعے مسلسل پھیلتے اور نمو پاتے شعبہ جات میں فعال تعاون کا فروغ جاری رکھیں گے۔ اس سلسلے میں میں درج ذیل سفارشات پیش کرنا چاہوں گا؛اول، ایس سی او ارکان کو مل کر فسطائی نظریات اور پرتشدد قومیت پرستی سے دنیا میں اور خاص طورپر ہمارے خطے میں نمٹنے کے لئے مل کر کام کرنا چاہئے۔ دوم، ایس سی او کو خطے کو جوڑنے والے منصوبوں کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ ان منصوبہ جات کو سیاسی مفادات کی تنگ نظری سے نہیں بلکہ کھلے دل سے دیکھاجائے اور خطے میں پائیدار ترقی کے حصول کے پہلو سے دیکھا جائے سوم، ہمیں اپنے سائنٹیفک اور ٹیکنیکل وسائل کو مجتمع کرکے مختلف شعبہ جات میں مشترکہ تحقیق کے لئے بروئے کار لانا چاہئے جن میں اولین اہمیت کورونا وائرس کی موثر ویکسین کی تیاری کو دینی چاہئے اور اس کی پوری دنیا کی بھلائی کے لئے رسائی کو عام ہونا چاہئے۔ آخری تجویز یہ ہے کہ ہمیں مل کر ایس سی او کو علاقائی ترقی کے ایک موثر فورم اور اپنی طرز کی نئی عالمی تنظیم کے طورپر اجاگر کرنا چاہئے جو”شنگھائی جذبے“ کے مقاصد پرمبنی ہے۔