رنج و الم کی کوئی حقیقت نہ پوچھیے، کتنی ہے میرے درد کی عظمت نہ پوچھیئے

کتنے لگے ہیں زخم جگر پر کسے خبر, ڈھائی ہے کس نے کتنی قیامت نہ پوچھیے
0
36
rehmat u nisa

رحمت النساء ناز

(پیدائش: 28 جون 1932ء
وفات: 9 جولائی 2008ء)

منتخب کلام

کتنے لگے ہیں زخم جگر پر کسے خبر
ڈھائی ہے کس نے کتنی قیامت نہ پوچھیے
——
اب تو ہے صرف آمد فصل بہار یاد
دل ایک پھول تھا جو سر شاخ جل گیا
——
میں سب کچھ بھول جاتی ہوں
کبھی موسم بھی بدلے تھے
دھنک کے رنگ پھیلے تھے
مرے آنگن میں بھی شاید
کبھی اک چاند اترا تھا
میں اکثر یاد کرتی ہوں
مگر پھر بھول جاتی ہوں
وہ دن جب زندگی کو
زندگی کی چاہ ہوتی تھی
کسی کے اک اشارے پر
دھڑکتا تھا کسی کا دل
میں اکثر یاد کرتی ہوں
مگر پھر بھول جاتی ہوں
ستاروں کا تبسّم
مسکرانا غنچہ وگل کا
مرا شہر نگاراں
اور کئی مانوس رستے بھی
میں اکثر یاد کرتی ہوں
مگر پھر بھول جاتی ہوں
——
جب دل کا درد منزلِ شب سے نکل گیا
محسوس یہ ہوا کوئی طوفان ٹل گیا
اب تو ہے صرف آمدِ فصلِ بہار یاد
دل ایک پھول تھا جو سرِ شاخ جل گیا
جب تک کسی کا نقشِ کفِ پا ہمیں ملا
ہم سے کچھ اور دور زمانہ نکل گیا
ہر گُل کے ساتھ ساتھ ہے اک پاسبانِ گُل
گُل چیں کو ارتباطِ گل و خار کھل گیا
کچھ راہروانِ شوق بھٹکنے سے بچ گئے
ہم کیا سنبھل گئے کہ زمانہ سنبھل گیا
ممکن نہیں کہ بزمِ طرب تک پہنچ سکیں
اب کاروانِ شوق کا رستہ بدل گیا
اے نازؔ غم نہیں جو فرشتہ نہ بن سکا
کیوں اہرمن کے روپ میں انسان ڈھل گیا
——
ایک بوڑھا خزاں رسیدہ شجر
جس نے اِک عمر سب کا ساتھ دیا
جب مسافر اگر کوئی تھکتا
یا، تپش دھوپ کی ستاتی اسے
اس کے سائے میں بیٹھ جاتا تھا
اس کے سائے میں کھیل کر بچّے
ایسے خوش ہوتے جیسے جنت ہو
اس کی بانہوں میں جُھولتے تھے کبھی
اور شاخوں سے کھیلتے تھے کبھی
چھاؤں میں اس کی بیٹھ کر کچھ لوگ
اپنے دکھ سکھ کے قصّے کہتے تھے
راز کتنے ہی دفن تھے اس جا
آج اس میں نہ شاخ ہے نہ ثمر
اب کسی کو نہیں ہے اس کا خیال
ہائے بوڑھا خزاں رسیدہ شجر!
——
رنج و الم کی کوئی حقیقت نہ پوچھیے
کتنی ہے میرے درد کی عظمت نہ پوچھیئے
کتنے لگے ہیں زخمِ جگر پر کسے خبر
ڈھائی ہے کس نے کتنی قیامت نہ پوچھیے
اشکوں نے راز دل کا کیا جب کبھی عیاں
کتنی ہوئی ہے مجھ کو ندامت نہ پوچھیے
——
کتنے لمحے ، کتنی گھڑیاں ، کتنے دن
وقت کے بہتے سمندر کے حوالے کر گئے
کتنی خوشیاں ، کتنے جذبے ، کتنے رشتے
بھیک کے پیار کی خاطر غیروں سے منسوب کیے
کتنا درد چھپایا اپنا ، کتنے پرائے دکھ اپنائے
کتنے پتھر موم کیے ، کتنے پتھر کنکر چُن کر
کتنے رستے آسان کیے
——
اگر پیروں میں اک زنجیر پڑ جاتی تو اچھا تھا
مرے سینے میں بھی پتھر کا دل ہوتا تو اچھا تھا
مرے ہونٹوں پہ بھی اک مُہر لگ جاتی تو اچھا تھا
سماعت بھی اگر میری کھو جاتی تو اچھا تھا
جگر کی آگ بھی ٹھنڈی ، جو ہو جاتی تو اچھا تھا
بھرم میرا اگر تھوڑا سا رہ جاتا تو اچھا تھا
مگر جو کچھ ہوا ، اچھا ہوا ، اچھا ہوا ، اچھا ہوا
وہ باقی آنکھ بھی پتھر کی ہو جاتی تو اچھا تھا
مگر جو کچھ ہوا ، اچھا ہوا ، اچھا ہوا ، اچھا ہوا

Leave a reply