رمضان میں منافع خوری عروج پر پہنچ گئی

0
23

کراچی میں رمضان المبارک کے دوران منافع خوری عروج پر پہنچ گئی ہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ منافع خوروں کو کوئی روکنے اور پوچھنے والا نہیں، سرکاری نرخ نامہ سمیت پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی غائب ہیں، بازاروں میں پرائس مجسٹریٹس کا نام و نشان نہیں ہے بیشتر اشیاء سرکاری قیمت سے 5گنا زیادہ مہنگی فروخت کی جارہی ہیں جبکہ شہری انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، شہریوں نے کہاکہ سندھ حکومت نے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف شکایتی سیل قائم کر کے جان چھڑا لی اورگراں فروشی کے نام پر نمائشی کارروائیاں بھی بندکردی گئی ہیں۔
کراچی میں دودھ، گوشت، پھل و سبزی کی سرکاری نرخ سے زائد نرخ پر فروخت جاری ہے، 94 روپے والا دودھ 130 روپے لیٹر، مرغی کے گوشت کی سرکاری قیمت 214 روپے مقرر ہے تاہم 450 روپے سے 500روپے کلو تک فروخت کیا جارہا ہے، 103 روپے والا امرود 200 سے 250 روپے، 98 روپے درجن کا کیلا 150 روپے، 253 روپے کلووالا لیمو 400 روپے، 22 روپے کلو مقرر بند گوبھی 80 سے 100 روپے، شملہ مرچ 33 روپے کے بجائے 140 سے 160 روپے، ہری پیاز 83 روپے کلو کے بجائے 160 جبکہ 22 روپے سرکاری نرخ والی پالک 50 روپے کلو میں دھڑلے سے بیچی جارہی ہے۔
عام سبزیوں کی قیمتیں کم ہیں لیکن خریدار چائنیز رائس اور ویجی ٹیبل رول میں استعمال ہونے و الی سبزیوں کی خریداری تک ہی محدود ہیں جس کی وجہ سے بند گوبھی، شملہ مرچ، ہری پیاز، گاجر کی من مانی قیمتیں وصول کی جارہی ہیں بند گوبھی 22 کے بجائے 80 سے 100 روپے کلو میں فروخت ہورہی ہے،شملہ مرچ 33 روپے کے بجائے 140 سے 160 روپے کلو میں بیچی جارہی ہے،ہری پیاز 83 روپے کلو کے بجائے 160 روپے کلو میں فروخت جاری22 روپے سرکاری نرخ والی پالک 50 روپے کلو میں دستیاب ہے۔
دوسری جانب کراچی میں مرغی کا گوشت 480 روپے سے لیکر 500 روپے تک فروخت ہورہا ہے، شہری کہتے ہیں ہر ہفتے چکن کھانے والے اب پندرہ میں ایک بار ہی کھا رہے ہیں۔ پرائس لسٹ کے مطابق مرغی کا گوشت 214روپے کلو ہے جبکہ بازار میں 500 روپے کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔دکانداروں کا کہنا ہے کہ 286روپے کلو کے حساب سے مرغی سپلائی ہورہی ہے، کمشنر کراچی دو سال سے پرانے ریٹ ہی جاری کر رہے ہیں، روڈ بند ہو جاتے ہیں تو تو فارم والے پیسے بڑھا دیتے ہیں۔شہریوں نے شکوہ کیاکہ مہنگائی رمضان سے پہلے کی ہے، حکومتی دعوے دعوے ہی رہ گئے، ہفتے میں ایک بار کھانے والے چکن پندرہ دن میں ایک بار کھا رہے ہیں۔

Leave a reply