پنجاب کالج ، ریپ کے الزامات میں بظاہر کوئی صداقت نہیں،ایچ آر سی پی

7 مہینے قبل
تحریر کَردَہ
lahore

پنجاب کالج میں ریپ کے الزامات میں بظاہر کوئی صداقت نظر نہیں آ رہی

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) اور اے جی ایچ ایس لیگل ایڈ سیل کے مشترکہ فیکٹ فائنڈنگ مشن کا کہنا ہے کہ فورینسک شواہد اور قابل بھروسہ شہادتوں کی عدم موجودگی میں یہ حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اکتوبر 2024 کے اوائل میں لاہور کے ایک نجی کالج میں ایک طالبہ کے ریپ کے الزامات حقیقت پر مبنی تھے۔ اس حوالے سے پیش آنے والے کئی واقعات نے پنجاب کالج کے کیمپس نمبر 10 کے طالبعلموں میں شبہات اور بداعتمادی کی فضا پیدا کر دی تھی جیسے کہ سوشل میڈیا پر ریپ کے غیرمصدقہ دعووں سے متعلق مواد کی تشہیر، سرکاری نمائندوں کے متضاد بیانات ( جنہوں نے پہلے الزامات کی تصدیق اور بعد میں تردید کی)، اور الزامات پر کالج انتظامیہ کا تاخیری اور غیرمعقول ردعمل ہے،

مشن نے 14 اکتوبر کو کیمپس 10 میں سینکڑوں طالبعلموں کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال کی شدید مذمت کی ہے۔ ان طالبعلموں نے مبینہ ریپ کا نشانہ بننے والی طالبہ کے لیے ‘انصاف’ کا مطالبہ کرنے کے لیے بہت بڑے احتجاج کا اہتمام کیا تھا تاہم اس پر انہیں پولیس تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔البتہ، آن لائن پلیٹ فارمز پر بہت زيادہ شورو غل سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ دیگر فریقین نے طالبعلموں کے بیانیے کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے اور سوشل میڈيا پر اپنا دائرہ کار بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ مشن کے مشاہدے کے مطابق، طالبعلموں کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کی صورت حال اور جنسی ہراسانی کے مسلسل واقعات اور متاثرین ہی کو مورد الزام ٹھہرانے کی روش سے بہت زيادہ نالاں ہیں۔ مسئلے کے حل کے لیے کیمپس کے منتظمین کی بظاہر عدم دلچسپی اور پولیس و کالج انتظامیہ پر شدید بداعتمادی نے حالات کو اور زيادہ خراب کیا ہے۔مشن کا کہنا ہے کہ طالبعلموں کے غصّے کو محض اس وجہ سے نظرانداز نہیں کر دینا چاہیے کہ وہ من گھڑت معلومات ملنے کی وجہ سے مشتعل تھے۔ تاہم، من گھڑت معلومات کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے پیش نظر یہ بھی ضروری ہے کہ ڈیجیٹل خواندگی اور حقائق کا ادراک آسان بنانے کے لیے باقاعدگی کے ساتھ عوامی سطح پر ایک سے زیادہ نتیجہ خیز شعوری مہم چلائی جائے۔

دیگر سفارشات کے ساتھ ساتھ، مشن یہ تجویز بھی پیش کرتا ہے کہ کیمپس 10 پر اکتوبر کے پہلے دو ہفتوں کے دورانیے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا فورینسک معائنہ کروایا جائے۔ علاوہ ازیں، طالبعلموں پر تشدد کرنے اور مبینہ جرم کے الزام میں ایک شخص کو ایف آئی آر کے بغیر حراست میں رکھنے پر پولیس کا محاسبہ کیا جائے۔ تاہم، مشن کا پرزور مطالبہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں ہراسانی اور جنسی تشدد کے الزامات کو ہمیشہ سنجیدہ لیا جائے اور تمام تعلیمی اداروں میں انسداد ہراسانی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو حقِ رازداری کی حفاظت کے ساتھ طالبعلموں کی دسترس میں ہوں۔

پنجاب میں سوشل میڈیا کے جھوٹے دعوے کا سراغ، نئی جے آئی ٹی تشکیل

پنجاب کالج مقدمہ،خاتون صحافی مقدس فاروق اعوان نے ضمانت کروا لی

پنجاب کالج ریپ کا ڈراپ سین،سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی روک تھام کی سفارش

ہر بچہ کہہ رہا تھا زیادتی ہوئی مگر کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں،سرکاری وکیل

پنجاب کالج سوشل میڈیامہم،عمران ریاض،سمیع ابراہیم سمیت 36 افراد پر مقدمہ

راولپنڈی،طلبا کا احتجاج، توڑ پھوڑ،پولیس کی شیلنگ

مبینہ زیادتی ،طلبا کا احتجاج، آئی جی پنجاب کو عدالت نے کیا طلب

پنجاب کالج مبینہ زیادتی کیس،کالج انتظامیہ کی طلبا سے کلاسوں میں جانے کی اپیل

ممتاز حیدر

ممتاز حیدر اعوان ،2007 سے مختلف میڈیا اداروں سے وابستہ رہے ہیں، پرنٹ میڈیا میں رپورٹنگ سے لے کر نیوز ڈیسک، ایڈیٹوریل،میگزین سیکشن میں کام کر چکے ہیں، آجکل باغی ٹی وی کے ساتھ بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں
Follow @MumtaazAwan

Latest from تازہ ترین