رٹو طوطا اور ہم ۔۔۔ غنی محمود قصوری

ایک دانا بندے نے بطور تجربہ ایک بولنے والا طوطا پالا اور روز اسے یہ الفاظ یاد کرواتا ،پنجرے سے باہر نہیں جانا درخت پر نہیں بیٹھنا، صبح و شام جب بھی اس کا ٹائم لگتا یہی الفاظ طوطے کو یاد کرواتا چند دن کی محنت سے وہ طوطا رٹے رٹائے الفاظ خوب یاد کر چکا اب وہ بندہ جب بھی طوطے کے پنجرے کے پاس آتا طوطا شروع ہو جاتا ،پنجرے سے باہر نہیں جانا درخت پر نہیں بیٹھنا سارا دن طوطا انھی الفاظ کو دہراتا رہتا اور خوب شور و غل کرتا ایک دن طوطے کے مالک نے طوطے کا امتحان لینے کا ارادہ کیا طوطے کو دانہ ڈال کر اس کے پنجرے کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا اور خود ایک طرف ہٹ کے بیٹھ گیا طوطے صاحب نے وہی الفاظ دہرانے شروع کر دیے اور جب دیکھا کہ پنجرے کا دروازہ کھلا ہے فوری اڑان بھری اور گھر کے صحن میں لگے درخت پر بیٹھ کر وہی الفاظ دہرانے شروع کر دیے ، پنجرے سے باہر نہیں جانا درخت پر نہیں بیٹھنا، وہ شخص اب درخت کے پاس آکر طوطے سے مخاطب ہوا کہ چلو پنجرے میں واپس اور اترو درخت سے نیچے جواباً طوطے نے وہی رٹے رٹائے الفاظ دہرانا شروع کر دیے ،پنجرے سے باہر نہیں جانا درخت پر نہیں بیٹھنا،
قارئین ایسے ہی کچھ حالات ہمارے ساتھ ہیں اللہ رب العزت نے ہمیں اپنے قرآن اور نبی محمد ذیشان صلی اللہ علیہ وسلم سے نوازا جو ہمیں پیدائش سے لے کر موت تک زندگی گزارنے کے ہر اصول سے روشناس کرواتے ہیں اور بطور مسلمان ہمارا اللہ کے فضل سے ایمان قرآن اور محمد ذیشان صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے مگر ہم اس معاشرے میں رہتے ہوئے رسم و رواج کو برا جانتے تو ہیں مگر کرتے وہی طوطے والی بات ہیں۔
ہم چوری چکاری کو برا تو سمجھتے ہیں مگر بات وہی طوطے والی الغرض کہ پیدا ہونے سے مرنے تک دنیا کے ہر برے کام کو برا جانتے ہیں مگر عملاً وہ رٹی رٹائی طوطے جیسی باتیں کہ جو پنجرے سے بھاگ کر بیٹھا درخت پر ہے مگر بول رہا ہے ،پنجرے سے باہر نہیں جانا درخت پر نہیں بیٹھنا۔ تو جس طرح اس طوطے کا مالک اس سے ناخوش ہو گا کہیں ہمارا مالک بھی ہم سے ناراض نہ ہو جائے۔ یقیناً یہ بڑے خسارے والی بات ہو گی۔

Leave a reply