را، ہندوتوا کے عالمی امن پر وار اور دنیا کی خاموشی
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
جب کوئی ریاست اپنی خفیہ ایجنسیوں کو اس حد تک طاقت دیتی ہے کہ وہ سرحدوں سے باہر جا کر قتل و غارت گری میں ملوث ہو جائیں تو یہ صرف اس ملک کی داخلی پالیسی نہیں رہتی بلکہ عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن جاتی ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی "را” کے کردار پر حالیہ برسوں میں جو انکشافات سامنے آئے ہیں، وہ نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا بھر کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ نیویارک میں سکھ رہنما گروپت ونت سنگھ پانن کے خلاف مبینہ قتل کی سازش نے اس خطرے کو مزید اجاگر کیا ہے۔ امریکی عدالتوں میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق جسے بلومبرگ نے رپورٹ کیا: “Prosecutors alleged in court documents that a murder-for-hire plot involved plans for an additional assassination in Nepal or Pakistan.” اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سازش صرف ایک فرد تک محدود نہیں تھی بلکہ اس کا دائرہ دیگر ممالک تک پھیلانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ مزید برآں بلومبرگ نے بتایا کہ وکاش یادو اور گپتا پر “murder-for-hire, conspiracy to commit murder-for-hire and conspiracy to commit money laundering” جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ بھارتی تفتیشی ادارے نے بھی تسلیم کیا کہ “rogue operatives not authorized by the government had been involved in the plot” یعنی اس سازش میں ایسے افراد ملوث تھے جنہیں حکومت کی طرف سے کوئی باضابطہ اجازت حاصل نہیں تھی۔

یہ تمام شواہد اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی "را” یا اس سے وابستہ عناصر، ہندوتوا کے نظریے کے زیر اثر، غیر ملکی سرزمین پر خفیہ قتل اور سازشوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ ہندوتوا جو کہ ایک انتہا پسند نظریہ ہے، بھارت کی داخلی سیاست سے نکل کر اب بین الاقوامی سطح پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ یہ نظریہ نہ صرف اقلیتوں کے خلاف نفرت کو فروغ دیتا ہے بلکہ بھارت کی خارجہ پالیسی کو بھی جارحانہ رخ دیتا ہے۔ جب ریاستی ادارے اس نظریے کے تابع ہو جائیں تو ان کی کارروائیاں صرف سفارتی حدود تک محدود نہیں رہتیں بلکہ وہ دوسرے ممالک میں بھی مداخلت کرنے لگتے ہیں۔

پاکستان میں "را” کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا ایک طویل اور تلخ پس منظر موجود ہے۔ بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی محض الزامات تک محدود نہیں بلکہ عملی طور پر جاری ہے۔ یادیو نے خود اعتراف کیا کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کی سرپرستی کر رہا تھا، اور اس کے خلاف عدالت میں پیش کیے گئے شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ پاکستان نے بارہا دئے ہیں کہ "را” نے پروکسی نیٹ ورکس کے ذریعے پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا اور دہشت گردی کی کارروائیاں کی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت نے متحدہ عرب امارات اور افغانستان سے "sleeper cells” کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی منظم کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں، جن میں مقامی افراد اور جرائم پیشہ عناصر کو استعمال کیا گیا۔ پاکستانی حکام کے مطابق 2020 سے اب تک کم از کم 20 افراد کو "را” کی کارروائیوں میں قتل کرا چکا ہے.

یہ الزامات صرف دو ممالک کے درمیان کشیدگی کا معاملہ نہیں بلکہ عالمی قوانین اور بین الاقوامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ جب ایک ریاست دوسرے ملک میں خفیہ طور پر قتل و غارت کی کارروائیاں کرے، تو یہ اقوام متحدہ کے چارٹر، انسانی حقوق کے انٹرنیشنل معاہدوں اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے باوجود، عالمی برادری کی خاموشی حیران کن ہے۔ امریکہ، کینیڈا اور دیگر مغربی ممالک میں بھارت کی ان کارروائیوں کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں، لیکن ان ممالک کی حکومتیں محض سفارتی تعلقات یا تجارتی مفادات کی بنیاد پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بلومبرگ جیسے معتبر ذرائع مسلسل اس حوالے سے رپورٹس شائع کر رہے ہیں، لیکن ان رپورٹس پر کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا۔

سوال یہ ہے کہ جب شفاف شواہد موجود ہیں، تو بھارت کو دہشت گرد ریاست کیوں نہیں قرار دیا جاتا؟ “When transparent evidence exists, why isn’t India declared a terrorist state?” کیا عالمی برادری صرف اس وقت حرکت میں آتی ہے جب متاثرہ ملک مغربی دنیا کا حصہ ہو؟ کیا جنوبی ایشیا کے ممالک کی جان و مال کی کوئی اہمیت نہیں؟ اگر بھارت کے خلاف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں مقدمات نہیں چلائے جاتے، اگر اقوام متحدہ اس پر پابندیاں عائد نہیں کرتا، تو یہ عالمی انصاف کے نظام پر ایک بدنما داغ ہوگا۔

یہ خاموشی صرف سفارتی مصلحت نہیں بلکہ ایک خطرناک غفلت ہے۔ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کو نظر انداز کرنا عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اگر آج دنیا نے اس پر آواز بلند نہ کی تو کل یہی خاموشی دیگر ممالک کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو، چاہے وہ ریاستی سطح پر ہو یا غیر ریاستی، اس کے خلاف یکساں ردعمل ضروری ہے۔ بھارت کو اس کے اقدامات کا جواب دینا ہوگا اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس کے خلاف متحد ہو کر کارروائی کرے۔

اگر دنیا آج خاموش رہی تو یہ سمجھ لیا جائے کہ اس نے عالمی امن کا قبرستان کھود دیا ہے۔ اس قبر پر خاموشی سے مٹی ڈالنا آنے والی نسلوں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہوگی۔ یہ وقت ہے کہ دنیا اپنی آنکھیں کھولے، انصاف کے تقاضے پورے کرے اور بھارت کو اس کے ریاستی جرائم کا ذمہ دار ٹھہرائے۔ کیونکہ اگر آج ہم نے خاموشی اختیار کی، تو کل یہ خاموشی ہمارے اپنے وجود کو نگل سکتی ہے۔

Shares: