پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کے خلاف کارروائیوں میں نیا موڑ آیا ہے، کیونکہ شیر افضل مروت، شعیب شاہین اور بیرسٹر گوہر کے بعد عامر ڈوگر، محمود خان اچکزئی کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق، شیر افضل مروت کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا، جبکہ شعیب شاہین کو ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔ شیر افضل مروت نے گرفتاری کے وارنٹ طلب کیے اور گاڑی سے باہر آنے سے انکار کیا، جس کے بعد انہیں نئے قانون کے تحت قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی اور پولیس کے ساتھ تصادم کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔بیرسٹر گوہر کی گرفتاری کے بعد، پی ٹی آئی کے مزید رہنماؤں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق عامر ڈوگر کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔محمود خان اچکزئی، جو کہ ایک اہم سیاسی شخصیت ہیں، کی بھی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے اور ریڈ زون کے داخلی اور خارجی راستے مکمل طور پر بند کر دیے گئے ہیں۔ ڈی چوک، نادرا چوک، سرینا، اور میریٹ ہوٹل کے مقام سے ریڈ زون کو سیل کر دیا گیا ہے، اور داخلے اور باہر جانے کے لیے صرف مارگلا روڈ کا راستہ کھلا ہے۔پولیس نے پارلیمنٹ ہاؤس میں اپوزیشن لیڈر اور دیگر لوگوں کے چیمبروں کو لاک کر دیا ہے، اور پی ٹی آئی کے رہنما سروس برانچ کے کمروں میں چھپ گئے ہیں۔ علی محمد خان پارلیمنٹ ہاؤس سے روانہ ہو گئے، اور پولیس نے انہیں گرفتار نہیں کیا۔ زرتاج گل نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران اپنے بیان میں کہا کہ وہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی لیڈر ہیں اور ان پر دہشتگردی کا الزام بے بنیاد ہے۔ انہوں نے وضاحت طلب کی کہ ان کے خلاف درج مقدمات میں کیا جرم ثابت کیا جا رہا ہے، حالانکہ جلسے کا این او سی بھی موجود تھا یہ گرفتاریاں اور پارلیمنٹ ہاؤس کی سیکیورٹی کی صورتحال ملک بھر میں سیاسی کشیدگی کو بڑھا سکتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف جاری کارروائیوں سے قانونی اور سیاسی سطح پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جو پارٹی کی قیادت اور حامیوں میں مزید بے چینی پیدا کر سکتے ہیں۔
قبل ازیں، قومی اسمبلی اجلاس کے دوران، زرتاج گل نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی لیڈر ہیں اور ان پر دہشتگردی کا الزام لگانا بے بنیاد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے ڈیڑھ لاکھ ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں جگہ بنائی ہے اور جلسے کا این او سی بھی موجود تھا۔ ان کے خلاف 47 مقدمات درج ہیں، اور انہوں نے وضاحت طلب کی کہ ان کے خلاف کیا جرم ثابت کیا جا رہا ہے۔پارلیمنٹ کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے اور ریڈ زون کے داخلی اور خارجی راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ ڈی چوک، نادرا چوک، سرینا، اور میریٹ ہوٹل کے مقام سے ریڈ زون کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے، اور یہاں تک کہ داخلے اور باہر جانے کے لیے صرف مارگلا روڈ کا راستہ کھلا ہے۔
یہ گرفتاریاں اور پارلیمنٹ ہاؤس کی سیکیورٹی کی صورتحال ملک بھر میں سیاسی کشیدگی کو بڑھا سکتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف جاری کارروائیوں سے قانونی اور سیاسی سطح پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جو پارٹی کی قیادت اور حامیوں میں مزید بے چینی پیدا کر سکتے ہیں۔پارلیمنٹ ہاؤس میں پی ٹی آئی رہنما کی موجودگی اور سیکیورٹی کی صورت حال پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری کردہ بیانات کے مطابق مزید کارروائیاں متوقع ہیں، اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ریڈ زون کے ارد گرد سیکورٹی کو مزید سخت کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دیگر رہنما بھی متوقع طور پر مزید گرفتاریوں کے خدشے کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال سیاسی طور پر بھی اہمیت رکھتی ہے، اور آنے والے دنوں میں اسلام آباد میں سیکیورٹی کی صورتحال میں مزید پیچیدگیوں کا امکان ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری: بیرسٹر گوہر، عامر ڈوگر، اور محمود خان اچکزئی بھی گرفتار
Shares: