ریحانہ کنول کا نام اردو ادب میں ہمیشہ احترام اور محبت سے لیا جائے گا۔ وہ ایک ایسی شاعرہ تھیں جن کے الفاظ نہ صرف جذبات کے عکاس تھے بلکہ معاشرے کے دکھوں اور ناانصافیوں کو بھی قلم کی نوک پر لا کر ایک سچائی کے آئینے میں سجا دیتے تھے۔ ان کی شاعری ایک مجبور ماں کی مامتا، زندگی کے نشیب و فراز، اور ایک حساس دل کی گہرائیوں کی ترجمانی کرتی رہی۔ آج وہ ہم میں نہیں رہیں، مگر ان کے الفاظ ہمیشہ زندہ رہیں گےریحانہ کنول کی زندگی کسی کہانی سے کم نہ تھی۔ ان کا ہر لمحہ، ہر دن ایک جدوجہد کی مانند گزرا، لیکن انہوں نے صبر و استقامت کو اپنا شعار بنایا۔ وہ ایک ایسی ماں تھیں جنہوں نے بے پناہ مشکلات کے باوجود اپنی اولاد کی بہترین پرورش کی اور ایک ایسی شاعرہ تھیں جن کی تحریروں میں سچائی اور درد کی خوشبو محسوس کی جا سکتی تھی ان کی زندگی مشکلات اور آزمائشوں سے بھری ہوئی تھی، لیکن انہوں نے کبھی حوصلہ نہیں ہارا۔ ایک بیوہ ماں ہونے کے باوجود انہوں نے نہایت صبر اور ہمت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا۔ وہ نہ صرف اپنی اولاد کے لیے ایک مضبوط سہارا تھیں بلکہ ان کے خیالات اور نظریات سے بے شمار لوگوں کو روشنی ملی۔ ان کے دل میں درد بھی تھا اور اس درد کی بازگشت ان کی شاعری میں سنائی دیتی تھی۔ وہ لفظوں کے ذریعے وہ سب کچھ بیان کر دیتی تھیں جو ایک عام انسان محسوس تو کر سکتا ہے مگر الفاظ میں ڈھالنے کی سکت نہیں رکھتا2024 میں جب بزمِ اوج کے سالانہ مشاعرے میں انہیں جہانیاں منڈی آنا تھا، تو ان کی کمر کی تکلیف نے انہیں روک دیا۔ انہوں نے معذرت کی، مگر جلد آنے کا وعدہ کیا۔ کچھ دن بعد وہ میرے گھر تشریف لائیں اور ایک پورا دن ہماری فیملی کے ساتھ گزارا۔ یہ ان کی محبت اور خلوص کا عملی مظاہرہ تھا۔ وہ الفاظ کی دنیا میں منفرد مقام رکھتی تھیں، مگر اپنی ذات میں بھی ایک عظیم انسان تھیں۔ ان کی سادگی، محبت اور خلوص ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی گفتگو میں ایسی تاثیر تھی کہ سننے والا ان کے الفاظ میں کھو جاتا تھاکچھ ماہ قبل انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کی، جہاں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا، مگر کسی مجبوری کی بنا پر میں شریک نہ ہو سکا۔ وہ ایک ماں ہونے کے ناطے اپنی اولاد کی خوشیوں میں سب سے آگے رہیں، مگر ان کی زندگی کے کئی پہلو ایسے بھی تھے جو ان کے حساس دل اور گہرے درد کی عکاسی کرتے تھےوہ ایک ایسی ماں تھیں جنہوں نے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی تمام خواہشات اور ضروریات کو پسِ پشت ڈال دیا۔ انہوں نے خود تکالیف سہیں مگر اپنی اولاد کو ہر ممکن خوشی دینے کی کوشش کی۔ یہ ایک ایسی قربانی ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا آسان نہیں۔ وہ راتوں کو جاگتی رہیں، دکھوں کو سہتی رہیں، مگر اپنی اولاد کے لیے ایک مضبوط دیوار کی مانند کھڑی رہیں ریحانہ کنول کی وفات کے بعد ان کے بچے ایک بار پھر آزمائش کی بھٹی میں جھونک دیے گئے۔ پہلے ہی والد کی جدائی کا زخم سہنے والے یہ معصوم اب اپنی ماں کے سائے سے بھی محروم ہو گئے۔ والدہ کی ممتا، شفقت، اور دعاؤں کی چھاؤں سے نکل کر وہ بے رحم زمانے کی بے حسی اور تلخ رویوں کے رحم و کرم پر رہ گئے۔ زندگی کے اس بے رحم کھیل میں وہ مزید تنہا ہوگئے، جہاں انہیں ماں کی مسکراہٹ، اس کے نصیحت بھرے الفاظ، اور اس کے سائے کی ضرورت تھی، وہی سب کچھ ان سے چھن چکا تھاریحانہ کنول کی شاعری محض لفظوں کا امتزاج نہیں تھی بلکہ ایک ایسے حساس دل کی آواز تھی جو معاشرتی ناانصافیوں، اپنوں کی بے حسی اور زندگی کی تلخیوں کو شدت سے محسوس کرتا تھا۔ وہ ان جذبات کو اپنی شاعری میں اس طرح پروتی تھیں کہ قاری کے دل پر براہِ راست اثر ہوتا تھا۔ ان کے اشعار میں المیہ، بغاوت، اور سچائی کا حسین امتزاج تھا۔ ان کے الفاظ کا چناؤ اتنا گہرا ہوتا کہ ایک عام قاری بھی ان کے جذبات کو شدت سے محسوس کرنے لگتا
یادگار غزل
چوڑیاں پہنی نہ مہندی ہی لگائی میں نے
ایک مدت سے نہیں عید منائی میں نے
بیٹیاں پالنا جنت کی خریداری ہے
بیٹیاں پال کے جنت ہے کمائی میں نے
سنتی آئی ہوں کہ ہیرے سے ہے ہیرا کٹتا
پیٹ کی آگ ہے فاقوں سے بجھائی میں نے
وہ محبت مِری تکلیف کا سامان ہوئی
جس محبت کے لئے چھوڑی خدائی میں نے
کون سا جرم ہے میرا کہ ہوئے ہو دشمن
اپنا حصہ ہی تو بس مانگا ہے بھائی میں نے
خالقِ کون و مکاں تیری بھری دنیا سے
ایک تسکین کی ساعت ہے چرائی میں نے
دنیا کی آنکھ نے زخمایا مِرے ہونے کو
اپنی میت ہے کئی بار اٹھائی میں نے
خوش گمانی نے سہولت کو اذیت جانا
اپنے حصے کی سہولت بھی نہ پائی میں نے
صرف ایسا تو نہیں ہے کہ ہوں کپڑے سیتی
دکھ کی پوشاک کی بھی کی ہے سلائی میں نے
ایک احساس یہی باعثِ تسکین رہا
اپنی خاطر نہ لڑی کوئی لڑائی میں نے
میں نے ہر شخص کو انسان سے تعبیر کِیا
جتنی دولت تھی بھروسے کی، لٹائی میں نے
ساعتِ وصل کی دستک پہ بھی در وا نہ کِیا
رسمِ ہجراں ہے کنول ایسے نبھائی میں نے
ریحانہ کنول کی جدائی اردو ادب کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ ان کے الفاظ آج بھی گونج رہے ہیں، ان کی تحریریں آج بھی روشنی دے رہی ہیں۔ وہ نہ صرف ایک شاعرہ تھیں بلکہ ایک بہترین انسان بھی تھیں جن کی موجودگی دوسروں کے لیے ایک نعمت تھی آج جب وہ اس دنیا میں نہیں رہیں، تو ان کی یادیں، ان کی باتیں، ان کے اشعار اور ان کا اندازِ فکر ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔ وہ چلی گئیں مگر اپنی تحریروں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ان کی شاعری کے ذریعے ہم ان کی روح کے درد اور احساسات کو محسوس کر سکتے ہیں ریحانہ کنول ایک ایسی ہستی تھیں جنہیں فراموش کرنا ممکن نہیں۔ ان کی جدائی ایک ذاتی نقصان بھی ہے اور ادبی دنیا کے لیے بھی ایک ناقابلِ تلافی نقصان۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے بچوں کو صبر اور حوصلہ عطا کرے۔ آمین








