کابل: طالبان حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار ملا محمد ابراہیم عمری پر خواتین کو ہراساں کرنے، طاقت کے ناجائز استعمال اور مالی بدعنوانی کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ملا محمد ابراہیم عمری نے اپنی ڈائریکٹوریٹ میں کام کرنے والی ایک خاتون ملازمہ کو دباؤ اور دھمکیوں کے ذریعے زبردستی اپنی تیسری بیوی کے طور پر نکاح کرنے پر مجبور کیا، جس سے طالبان کے زیرِ انتظام اداروں میں خواتین کے عدم تحفظ پر گہری تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ کسی ایک فرد تک محدود نہیں بلکہ طالبان کے بعض حلقوں میں خواتین کے ساتھ ہراسانی اور اختیارات کے غلط استعمال کا رجحان عام ہوتا جا رہا ہے۔ متاثرہ خاتون مبینہ طور پر ملا عمری کے ماتحت ادارے میں سرکاری ملازمہ تھیں اور ان پر ملازمت برقرار رکھنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا گیا۔مزید انکشافات کے مطابق ملا محمد ابراہیم عمری نے اپنے زیرِ انتظام 120 عہدوں پر مشتمل ڈائریکٹوریٹ میں سے 36 اہم عہدے، 5 امارتیں اور ایک ایگزیکٹو مینجمنٹ کا عہدہ اپنے قریبی خاندان کے افراد کے لیے مختص کر رکھے تھے، جسے اقربا پروری کی واضح مثال قرار دیا جا رہا ہے۔

ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ ملا عمری پر یونیسف کے تحت تنخواہ پانے والے ملازمین سے 30 سے 50 فیصد تک رقم زبردستی وصول کرنے کے الزامات ہیں، جبکہ اساتذہ کے لیے منعقد کیے گئے تربیتی سیمینارز میں بھی مالی بے ضابطگیوں اور خرد برد کے شواہد سامنے آئے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام معاملات طالبان کے اعلیٰ حکام کے علم میں لائے گئے، تاہم تاحال کسی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی۔ مبصرین کے مطابق اس خاموشی سے یہ تاثر مزید مضبوط ہو رہا ہے کہ طالبان حکومت میں خواتین کے حقوق، ملازمین کے تحفظ اور احتساب کے نظام کو سنجیدگی سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

Shares: