اویس لغاری ہٹاؤ، حکومت اور عوام بچاؤ

2 دن قبل

اویس لغاری ہٹاؤ، حکومت اور عوام بچاؤ
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
جب جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں کے محنت کش کسان نے محدود وسائل کے باوجود اپنے چھوٹے سے گھر میں دو بجلی کے میٹر نصب کیے، تو یہ کوئی چالاکی نہ تھی بلکہ مہنگائی کے عذاب میں کچھ سانس لینے کی آخری کوشش تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اگر "پروٹیکٹڈ سلیب” میں رہے تو شاید چولہا جلتا رہے اور بچوں کی فیس ادا ہو جائے۔ مگر اویس لغاری کی وزارت توانائی نے ایسا حکم صادر کیا جس نے لاکھوں غریب گھرانوں کی آخری امید روند ڈالی۔ دو میٹروں پر پابندی لگا کر صارفین کو ظالمانہ "نان پروٹیکٹڈ” سلیب میں دھکیل دیا گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب قوم کی کمر واقعی ٹوٹ گئی۔

اویس لغاری کی وزارت توانائی عوامی اذیت کا استعارہ بن چکی ہے۔ ان کے متضاد بیانات، گمراہ کن اعلانات اور فیصلوں نے عام شہری کو نہ صرف مالی نقصان دیا بلکہ عزت نفس کو بھی مجروح کیا۔ آج غریب کے بجلی کے بل مڈل کلاس کے بنک اکاؤنٹ سے زیادہ وزنی ہو چکے ہیں۔ اویس لغاری نے عوام کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اب وزیر اعظم کو کسی دشمن یا سازش کی ضرورت نہیں رہی بلکہ اویس لغاری کی وجہ سے عوامی غیظ و غضب خود دہکتا لاوا بن چکا ہے۔

پاک بھارت جنگ کے بعد حکومت کی عالمی سطح پر سفارتی کامیابیاں بھی اس لاوے کو روکنے میں ناکام ہیں کیونکہ جب گھر کا بلب بجھ جائے، چولہا ٹھنڈا ہو اور بل ہزاروں میں ہوں تو قوم کے لیے حکومتی کامیابیاں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ اویس لغاری کے اقدامات نہ صرف عوام پر معاشی بمباری ہیں بلکہ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے بھی سیاسی بارودی سرنگ ہیں۔

اویس لغاری کی وزارت کا آغاز ہی جھوٹے وعدوں سے ہوا۔ عام انتخابات سے قبل بلاول بھٹو نے 300 یونٹ مفت بجلی کا اعلان کیا جو غریب عوام کے لیے امید کی کرن تھا۔ لیکن جب اویس لغاری نے وزارت سنبھالی تو نہ صرف یہ وعدہ پورا نہ ہوا بلکہ بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہوا۔ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز اور دیگر سرچارجز کے ذریعے بل کئی گنا بڑھا دیے گئے۔ ایک عام گھرانے کا بل جو پہلے چند ہزار کا تھا، اب لاکھوں تک جا پہنچا۔ اویس لغاری کے دعوے، جیسے "ہم نے قیمتوں میں کمی کے لیے اقدامات کیے ہیں” یا "بلنگ کا نظام شفاف بنایا ہے”، عملاً بے معنی ثابت ہوئے۔ پروٹیکٹڈ سے نان پروٹیکٹڈ سلیب کی منتقلی، ناجائز ڈیٹیکشن بلز اور دو میٹروں پر پابندی نے ان کے تمام دعوؤں کو جھوٹا کر دیا۔

بلنگ سسٹم میں سلیب کی تبدیلی خاص طور پر ظالمانہ تھی۔ 200 یونٹ سے ایک یونٹ زیادہ پر صارف "نان پروٹیکٹڈ” کیٹگری میں آ جاتا، جس سے بل کئی گنا بڑھ جاتا۔ وزیر اعظم نے اوور بلنگ پر برہمی کا اظہار کیا لیکن اویس لغاری نے معاملہ نیپرا کو سونپ کر جان چھڑا لی۔ سوشل میڈیا پر شکایات عام ہو گئیں کہ بل 8 ہزار سے 25 ہزار تک پہنچ گیا حالانکہ بجلی کا استعمال وہی تھا۔

دو میٹروں پر پابندی نے دیہی علاقوں کے صارفین کی مشکلات دوچند کر دیں۔ کئی گھرانوں میں بجلی کا بوجھ تقسیم کرنے کے لیے دو میٹر استعمال ہوتے تھے، جس سے نہ صرف نظام بہتر چلتا بلکہ صارفین پروٹیکٹڈ سلیب سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ اب یا تو وہ استعمال کم کریں یا مہنگے سلیب پر بل ادا کریں۔ ایک دیہاتی صارف نے بی بی سی کو بتایا کہ دو میٹروں سے فائدہ ہو رہا تھا، لیکن ایک میٹر ہٹانے سے بل دوگنا ہو گیا۔

ناجائز ڈیٹیکشن بلز نے بھی عوام کو نچوڑ کر رکھ دیا۔ بجلی چوری کے الزامات لگا کر بھاری جرمانے عائد کیے گئے، اکثر بغیر ثبوت۔ اویس لغاری نے خود تسلیم کیا کہ اوور بلنگ ہو رہی ہےلیکن ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ سوشل میڈیا پر ان پر رشوت خوری اور جاگیردارانہ ذہنیت کے الزامات لگے۔ ان کے فورٹ منرو کے گھر کا بل محض 124 روپے بتایا گیا جبکہ عوام ہزاروں روپے کے بل ادا کر رہے ہیں۔ اگرچہ وضاحت دی گئی کہ میٹر بند تھا، لیکن معاملہ عوامی بحث کا حصہ بن چکا ہے۔

بیوروکریسی اور اشرافیہ کو دی گئی مفت بجلی کی سہولت ختم نہ کی جا سکی۔ نگران حکومت نے اسے ختم کرنے کا عندیہ دیاتھا مگر اویس لغاری نے اسے جاری رکھا۔ سالانہ 500 ارب روپے سے زائد مفت بجلی اشرافیہ کھا جاتی ہے اور بوجھ عوام اٹھاتے ہیں۔ 2024 کے دوران بجلی کی قیمتوں میں 20 فیصد سے زائد اضافہ ہوا، جس نے عوام کو بدترین معاشی بحران میں جھونک دیا۔ گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسران کو دی گئی یہ سہولت عوامی اشتعال کا باعث بنی۔

اویس لغاری کے فیصلوں نے وزیر اعظم کی حکومت کو آتش فشاں کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ عوام کا غصہ اب قابو سے باہر ہو رہا ہے، جو کسی بھی وقت سڑکوں پر ابل سکتا ہے۔ دشمنوں کے خلاف سفارتی کامیابیاں بھی اب عوامی بھوک، پیاس اور اندھیرے کے سامنے غیر متعلق ہو چکی ہیں۔ جب عزت نفس اور بنیادی ضروریات چھن جائیں تو صرف اشتعال باقی رہ جاتا ہے.

اویس لغاری کی پالیسیاں قوم کی اجتماعی خود کشی کامکمل سامان پیدا کر چکی ہیں۔ عوام کے پاس دینے کو کچھ نہیں بچا، لیکن قربانی کے لیے اویس لغاری جیسے وزراء کی فہرست طویل ہے۔ ان کا سیاسی ماضی بھی غیر مستقل مزاجی کی گواہی دیتا ہے ، مسلم لیگ (ق) سے مسلم لیگ (ن)، پھر تحریک انصاف کی چوکھٹ تک۔ ایسے افراد سے اصول اور وفاداری کی توقع عبث ہے۔ اگر حکومت عوامی غیض و غضب کی لپیٹ میں آئی تو اویس لغاری سب سے پہلے کشتی چھوڑ دیں گے۔

لیکن میاں صاحب! اس عوامی طوفان کا سامنا آپ کو کرنا ہو گا۔ اگر اب بھی فیصلہ نہ کیا گیا تو یہ نہ صرف آپ کی حکومت بلکہ مریم نواز شریف کی ابھرتی ہوئی قیادت کو بھی لے ڈوبے گا۔ اویس لغاری کو برطرف کرنا، بجلی کے نرخ کم کرنا، سلیب سسٹم کی اصلاح، ناجائز ڈیٹیکشن بلز کا خاتمہ اور دو میٹروں پر سے پابندی اٹھانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ ورنہ تاریخ آپ کو عوام دشمن وزیر کا محافظ لکھے گی۔

وزیر اعظم صاحب! اب فیصلہ کن اقدام کا وقت ہے۔ یہ محض ایک وزارت کی کارکردگی نہیں بلکہ آپ کی حکومت کے وجود اور سیاسی وراثت کی بقا کا سوال ہے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اب یا آپ عمل کریں گے یا پھر عوام کا طوفان سب کچھ بہا لے جائے گا۔

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی 2003ء سے اب تک مختلف قومی اور ریجنل اخبارات میں کالمز لکھنے کے علاوہ اخبارات میں رپورٹنگ اور گروپ ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹرکے طورپر زمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں اس وقت باغی ٹی وی میں بطور انچارج نمائندگان اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں

Latest from بلاگ