عالمی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے رپورٹر کو ‘خلیج امریکا’ کا لفظ استعمال نہ کرنے پر وائٹ ہاؤس سے باہر نکال دیا گیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ اس کے رپورٹر ’ خلیج میکسیکو’ لفظ کا استعمال کرنا برقرار رکھے ہوئے تھے جس کی سزا کے طورپر انہیں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس ایونٹ میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔اے پی کی ایگزیکٹو ایڈیٹر، جولی پیس نے ایک بیان میں کہا: "ایک عالمی خبر رساں ادارے کے طور پر، ایسوسی ایٹڈ پریس ہر روز دنیا بھر میں اربوں لوگوں کو حقائق پر مبنی، غیر جانبدارانہ صحافت سے آگاہ کرتا ہے۔””آج ہمیں وائٹ ہاؤس کی طرف سے مطلع کیا گیا کہ اگر AP نے اپنے ایڈیٹوریل معیار کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر خلیج میکسیکو کا نام بدل کر خلیج امریکا رکھنے کے مطابق نہیں کیا، تو AP کو اوول آفس میں ہونے والی تقریب میں شرکت سے روک دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ "یہ تشویشناک ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اے پی کو اس کی آزاد صحافت کی سزا دے گی۔ اوول آفس تک ہماری رسائی کو محدود کرنا نہ صرف عوام کی آزاد خبروں تک رسائی میں شدید رکاوٹ ہے بلکہ یہ پہلی ترمیم کی صریحاً خلاف ورزی کرتا ہے۔ فاؤنڈیشن برائے انفرادی حقوق اور اظہار (فائر) کے آرون ٹیر نے اس اقدام کو "آزادی صحافت پر ایک خطرناک حملہ” قرار دیا۔” وائٹ ہاؤس کارسپانڈنٹس ایسوسی ایشن (WHCA) نے بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں اس فیصلے پر احتجاج کیا۔ڈبلیو ایچ سی اے کے صدر یوجین ڈینیئلز نے کہا، ’’ وائٹ ہاؤس یہ حکم نہیں دے سکتا کہ خبر رساں ادارے خبریں کس طرح رپورٹ کریں، اور نہ ہی اسے ورکنگ صحافیوں کو سزا دینا چاہیے ایک رپورٹر کو آج خبروں کی کوریج کے لیے کھلے سرکاری پروگرام سے روکنا ناقابل قبول ہے۔

یادرہے اوول آفس میں صدر اور ایلون مسک کے ساتھ ایک سوال و جواب کا سیشن ہوا تھا جس میں مسک نے اپنے محکمہ DOGE کے بارے میں وضاحت پیش کی ۔ حلف برداری کے فوری بعد صدر ٹرمپ نے خلیج میکسیکو اور شمالی امریکہ کی بلند ترین چوٹی ڈینالی دونوں کا نام تبدیل کرنے کے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے۔ جس کے مطابق، خلیج میکسیکو کا نام بدل کر خلیج آف امریکہ رکھ دیا جائے گا، اور ڈینالی کوماؤنٹ میک کینلے کے نام سے پکارا جائے گا – تاہم اے پی نے اپنے ایڈیٹوریل بورڈ کی تجزیئے کی روشنی میں فیصلہ کیا تھا کہ خلیج امریکا کی جگہ اسے خلیج میکسیکو کے نام سے ہی لکھا اور پکارا جائے گا کیونکہ خلیج میکسیکو کا نام "400 سال سے زیادہ” سے برقرار ہے اور دوسرے ممالک اور بین الاقوامی اداروں کو نام کی تبدیلی کو تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

تاہم ماؤنٹ میک کینلے کامعاملہ جدا ہے کیونکہ الاسکا مکمل طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکا کاحصہ ہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس کانام بدلنے کا اختیارہے۔وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر ڈبلیو ایچ سی اے اور اے پی کے بیانات پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ میکسیکو کی وزارت خارجہ نے بھی تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی اداروں سے ڈاؤن سائزنگ یعنی افرادی قوت میں کمی لانے کے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں۔ اوول آفس میں صدارتی حکم نامے پر دستخط کے موقع پر صدر ٹرمپ کے مشیر ایلون مسک بھی موجود تھے۔

صدارتی حکم نامے کے مطابق وفاقی سرکاری اداروں سے چار ملازمین کی فراغت پر ایک سے زائد ملازم رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ایگزیکٹو آرڈر میں امیگریشن، قانون کے نفاذ اور عوامی تحفظ کے اداروں کو اس سے مستثنا قرار دیا گیا ہے۔وائٹ ہاؤس کی فیکٹ شیٹ کے مطابق سرکاری ادارے افرادی قوت کم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر منصوبے کا آغاز کریں گے اور یہ ادارے اس بات کا بھی جائزہ لیں گے کہ اس کے کن حصوں یا پوری ایجنسی کو ختم کیا جا سکتا ہے یا کن اداروں کو ضم کیا جا سکتا ہے کیوں کہ قانون کے مطابق ان کی ضرورت نہیں ہے۔انتظامیہ کی جانب سے وفاقی سرکاری ملازمین کو مالی فوائد کے بدلے میں مستعفی ہونے پر زور دیا جا رہا ہے۔ البتہ ایک جج کی جانب سے اس عمل کو روک دیا گیا ہے اور اس کی قانونی حیثیت کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

سرکاری ملازمین کے حق میں ریلی

ملازمت چھوڑنے کے پروگرام ‘بائے آؤٹ’ کے تحت قبل از وقت ملازمت سے مستعفی ہونے والے سرکاری ملازمین کو ستمبر تک کی ادائیگی کی جائے گی۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اب تک 65 ہزار سے زیادہ سرکاری ملازمین اس پروگرام کے تحت مستعفی ہونے کی حامی بھر چکے ہیں۔دوسری جانب امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں منگل کو سرکاری ملازمین کے حق میں ریلی نکالی گئی۔

Shares: