سپریم کورٹ کے 14 نومبر کو ہونے والے فل کورٹ اجلاس کی اندرونی تفصیلات سامنے آگئی ہیں، جہاں ججز کی اکثریت نے اجتماعی استعفے کی تجویز کو مسترد کردیا۔
اجلاس چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں منعقد ہوا، جس میں مجموعی طور پر 13 ججز شریک تھے، جبکہ جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس مسرت ہلالی بیماری یا ذاتی مصروفیات کے باعث شریک نہ ہو سکے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی کے معاملے پر تفصیلی غور کیا گیا۔ دورانِ اجلاس چند ججز نے یہ تجویز پیش کی کہ عدالت پارلیمنٹ کی جانب سے قانون سازی روکنے کے لیے اجتماعی استعفے دے، تاہم اس تجویز پر اتفاق رائے پیدا نہ ہو سکا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ججز کو حکومت یا کسی سرکاری ادارے کو خط لکھنے کے بجائے براہِ راست بات چیت کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے مزید واضح کیا کہ سپریم کورٹ کے پاس کسی بھی قانون کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینے کا اختیار موجود ہے، لیکن یہ اختیار تب استعمال ہوتا ہے جب قانون نافذ ہو جائے، اس لیے عدالت پارلیمنٹ کو پہلے سے قانون سازی سے نہیں روک سکتی
امریکا کی بھارت کو جدید اسلحے کی فروخت کی منظوری
ملک کو اب 28ویں ترمیم کی جانب بڑھنا ہوگا،خواجہ آصف
کوپ 30 پویلین میں آگ لگنے کا واقعہ، تمام سرگرمیاں منسوخ








