رشتہ کوئی بھی ہو اہم ہوتا ہے ،تحریر:شمائل عبداللہ

باغی ٹی وی پر تحریریں شائع کروانے کے لئے ای میل کریں یا واٹس اپ کریں 03030204604
rishta

اپنا مختصر سا تعارف کروا دوں کہ میں بھی ایک مرد ہوں کوئی خواجہ سرا نہیں جو یہ باتیں لکھ رہا ہوں تلخ لگ سکتی ہیں مگر حقیقت ہیں۔میں نے کہیں پڑھا تھا "”اگر آپ کسی عورت کو اکیلا دیکھ کر بھی ہوس سے پاک ہیں پھر یا تو آپ فرشتے ہیں یا پھر خواجہ سرا”
اس بات کا مطلب کیا ہے؟
کیا مرد اور عورت صرف میاں بیوی ہیں؟
کیا عورت سے ہمارا اور کوئی رشتہ نہیں؟
پھر ماں بہن بیٹی یہ سب کیا ہیں؟
اگر اتنی ہی ہوس چڑھی ہے اگر نہیں ضبط ہو رہا تو یہ آپشن آپ کے پاس موجود ہیں۔
ان ناموں سے بھی غیرت کا کیا فائدہ کہ ان رشتوں کا بھی پاس کہاں رکھا گیا معاشرے میں بہت کچھ غلیظ ہو رہا ہے جو بیان سے باہر ہے۔
افسوس کہ آج ہمیں محض حوروں کی ہوس ہے جس کی وجہ سے ہم تھوڑے بہت اچھے ہیں لیکن خدا نیتوں کو جانتا اس لئے یاد رکھو کہ:-
” حوروں کی ہوس رکھنے والوں کو حورے ملین گے فرشتوں سے ”
ہم اکثر منہ بولے رشتوں کی مخالفت اسی وجہ سے کرتے ہیں۔ تو سوچئے ہم سگے رشتوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟
کہیں نانا دوتی کیساتھ لگا ہے کہیں باپ بیٹی کے ساتھ۔
علامہ اقبال کا شعر یاد آتا ہے کہ:-
"یہ کوئی نہیں کہتا کہ میں خود ہوں خراب
ہر کوئی کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے”
اپنی آنکھ کا شہتیر نظر انداز کرکے ہم دوسرے کی آنکھ سے تنکا نکالنا بخوبی جانتے ہیں. یاد رکھو کہ گناہ کی سوچ ہی گناہ کرنے کے مترادف ہے گناہ کر گزرنا ضروری نہیں۔
پھر علی زریون بھی کہتے ہیں کہ:-
” ازل سے لیکر اب تک عورت کو
سوا جسم کے کیا سمجھا گیا ہے ”
ویسے حوس کا نشانہ تو خیر سے خواجہ سرا بھی ہیں بلکہ جانور پرندے بچے ہر شے ہی کئی لوگ تو اکیلے میں بھی ۔۔۔۔ تو کیا ہر چیز پردہ کرے؟ بات کو سمجھئے گا تحریر میں پردے کی مخالفت نہیں کی گئی”
پھر مخالفت ہے لڑکی لڑکے کی دوستی کی یعنی خود کو ٹھیک نہیں کرنا مخالفت کرنی ہے۔
پھر یوں کرو کہ سب سے بول چال بند کردو کیونکہ” ہم جنس پرستی ” بھی عام ہے۔
میں فیشن کے خلاف نہیں ہوں فیشن نیا انداز ہے لیکن ” ہم نے بجائے اچھی چیزوں کو فیشن بنانے کے بدی کو فیشن بنا رکھا ہے اور جو روکے وہ پرانے خیالات کا ہے”
” کچھ اس وجہ سے بھی ہے بدی عروج پر
خدا کی نظر سے کسی نے دیکھا نہیں عورت کو”
ایک جگہ لکھا تھا۔
مرد عورت کے بیچ تیسرا شیطان ہوتا ہے کیوں؟
کیا آپ کبھی اپنی بہنوں کیساتھ نہیں بیٹھے؟
اور اگر ایسا ہے بھی تو ہمیں اسے حاوی نہیں کرنا مقابلہ کرنا ہے تاکہ ہم سے بھاگ جائے”
بھلے شاہ کہتے ہیں:-
۔۔۔۔پہلاں من اپنے نوں پڑھ
فر مندر مسجد وڈ
جدوں نفس جاوے ترا مر
فر نال شیطاناں لڑ۔۔۔۔
یعنی سب سے بڑا شیطان ہمارے اندر ہے ہمارا ” نفس ”
ہم کہتے فلاں لڑکی کا لباس دیکھ کر ہم نے ایسا کیا بھئی مت بھولیں آپ اشرف المخلوقات ہیں۔
اگر سامنے والا غلط ہے تو اس کا ردعمل کرکے آپ نے خود کو حیوان بنا لیا "
کیونکہ فوری ردعمل انہی کا کام ہے انسان کے پاس تو قوت برداشت ہے۔
خدا نے آدم کو محافظ حوا کو مددگار بنایا ۔۔۔
لیکن افسوس دونوں بھول گئے۔
دوستی کے حوالہ سے بھی کئی شعراء کہتے ہیں۔
حوس و حوانیت سے اٹھ کر دیکھو
لڑکیوں سے اچھا دوست مل جائے تو کہنا
پھر
نہ دیکھ حسن کو حوس و حوانیت کی نگاہوں سے
عورت اگر دوست نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں
ایک اور لائن تھی کہ:-
"وہ مری دوست ہے میں اسے اچھا لگتا ہوں”
یہ ہے دوستی بس اچھا لگنا بالکل ایسے جیسے بہن بھائی اور ہم نے اسے محبت سے جوڑ دیا جو بالکل الگ بات ہے۔
ایک آخری بات یہ بھی کرنا چاہوں گا کہ ہمیں گلہ ہے کہ زمانہ محبت کو نہیں سمجھتا تو کیا ہم خود سمجھتے ہیں محبت کو؟
…زمانہ سمجھے محبت کو یہ مسئلہ بعد کا ہے لیکن!!!
پہلے سمجھیں تو محبت کرنے والے محبت کو…
ہماری جہالت کہیں کہیں کہتی ہے کہ منہ بولے بہن بھائی ہو سکتے ہیں مگر لڑکی لڑکے کی دوستی نہیں یہ سب ہمارے ہی ذہن کے خرافات ہیں۔
رشتہ کوئی بھی ہو اہم ہوتا ہے
بس نظر و نظریہ ہی وہم ہوتا ہے

Comments are closed.