مظفرگڑھ (باغی ٹی وی) کچے کے جرائم پیشہ عناصر نے ایک بار پھر مظفرگڑھ پولیس کی رٹ کو چیلنج کر دیا۔ گذشتہ روزتحصیل علی پور کے موضع لنگرواہ میں 30 سے زائد مسلح ڈاکوؤں نے دھاوا بول کر مقامی لوگوں کی 180 بھینسیں لوٹ لیں اور باآسانی فرار ہو گئے۔ واردات نے علاقے میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی ہے جبکہ عوام کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی پر شدید سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
پولیس کے مطابق متاثرہ افراد نے واردات کے کئی گھنٹے بعد اطلاع دی، جس کے باعث ڈاکو باآسانی کچے کے علاقوں میں داخل ہو گئے۔ جائے واردات پہلے سے جاری کچے آپریشن کے علاقے میں واقع ہے، تاہم اس کے باوجود ڈاکوؤں کی منظم یلغار نے پولیس کی حکمتِ عملی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ واردات میں ملوث ڈاکو بوسن اور دیگر جرائم پیشہ گینگز سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی گرفتاری کے لیے مظفرگڑھ اور راجن پور کے کچے دریائی علاقوں میں ناکہ بندیاں کر دی گئی ہیں، اور پولیس تعاقب میں ہے۔
مظفر گڑھ پولیس ترجمان نے کہا ہے کہ کچے کے گینگ کا خاتمہ ہی پولیس کی اولین ترجیح ہے۔ ڈی پی او ڈاکٹر رضوان احمد خود کچے آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں اور پولیس ٹیموں کو جدید ہتھیاروں، ڈرونز اور ٹیکنالوجی سے لیس کیا جا رہا ہے تاکہ ان سنگین وارداتوں کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ پولیس آپریشن کی بات کرتی ہے، مگر کچے کے جرائم پیشہ گروہوں کا نیٹ ورک مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ کچے کے علاقوں میں مستقل بنیادوں پر سخت فوجی طرز کا آپریشن شروع کیا جائے تاکہ ان وارداتوں کا مستقل خاتمہ ممکن ہو۔
مزید یہ کہ حالیہ واردات نے پولیس کی موجودہ حکمت عملی پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے، کیونکہ ڈاکو دن دہاڑے اتنی بڑی تعداد میں مویشی لوٹ کر فرار ہو گئے اور کئی گھنٹوں تک کوئی مؤثر کارروائی نظر نہیں آئی۔ عوامی حلقے سوال کر رہے ہیں کہ آخر کب تک شہری کچے کے ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر رہیں گے؟
ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ مشتبہ سرگرمیوں کی فوری اطلاع دیں تاکہ کارروائی بروقت ممکن ہو سکے۔ کچے کے ان بدنام زمانہ گینگس کا خاتمہ اب صرف پولیس کا نہیں، بلکہ پورے ریاستی نظام کا امتحان بن چکا ہے۔