روہڑی بس حادثہ، ہلاکتوں میں اضافہ، بلاول کا اظہار افسوس
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سندھ کے علاقے روہڑی کے قریب کراچی سے راولپنڈی جانے والی پاکستان ایکسپریس بغیر پھاٹک والے راستے سے ریلوے لائن کراس کرنے والی مسافر کوچ سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں 30 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔
پاکستان ایکسپریس جونہی روہڑی ریلوے سٹیشن سے تقریباً تین کلومیٹر پہلے اچھیوں قبیوں کے مقام پر پہنچی تو ریلوے لائن پر قائم بغیر پھاٹک والے ریلوے کراسنگ پر مسافر کوچ ٹرین کی زد میں آگئی جس کی وجہ سے مسافر کوچ کے پرخچے اُڑ گئے۔
حادثے کی اطلاع ملتے ہی ریلوے کی امدادی ٹیموں کے علاوہ ایدھی ایمولینس اور دیگر ادارے حرکت میں آ گئے اور حادثے میں جاں بحق ہونے والے مسافروں اور زخمیوں کو تحصیل ہیڈ کوارٹرز روہڑی اور سول ہسپتال سکھر پہنچانا شروع کر دیا۔ آخری اطلاع تک جائے حادثہ پر صورتحال کافی گھمبیر تھی اور اندھیرے کی وجہ سے ہلاکتوں اور زخمیوں کے بارے میں اندازہ لگانے میں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔
حادثے کے بعد زخمیوںکو سکھر منتقل کیا گیا تو ہسپتال کی بجلی چلی گئی جس کی وجہ سے طبی عملے کو زخمیوں کو علاج کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے، پاک فوج کی ٹیمیں بھی ہسپتال اور جائے وقوعہ پر پہنچ چکی ہیں.
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹرین حادثے میں ہلاکتوں پر اظہار افسوس کرتے ہوئے سندھ حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر زخمیوں کے بروقت علاج کو ممکن بنائے۔
بلاول زرداری نے کہا ہے کہ آئے روز کے ٹرین حادثات وفاقی حکومت کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ ایک ٹرین حادثے پر استعفیٰ کی باتیں کرنے والے عمران خان آخر کتنے حادثوں بعد جاگیں گے؟ سیاست دانوں کی کردار کشی میں مصروف پی ٹی آئی حکام کو عوام کی زندگیوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ٹرین حادثے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے
نجی ٹی وی کی رپورت کے مطابق ریلوے ذرائع کے مطابق ٹرین کو روہڑی ریلوے سٹیشن میں داخل ہونے کے لئے سگنل کلیئر ملا ہوا تھا، جس کی وجہ سے اچانک مسافر کوچ سامنے آنے کے باعث ٹرین کو ایمرجنسی بریک کے ذریعے بھی روکا نہ جا سکا۔
دوسری جانب علاقے کے لوگوں نے بتایا کہ اچھیوں قبیوں کے قریب قومی شاہراہ کے ریلوے اوور ہیڈ پر طویل ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے مسافر کوچ نے قومی شاہراہ کو چھوڑ کر متبادل راستہ اختیار کرکے ایسی جگہ سے ریلوے لائن کراس کرنے کی کوشش کی، جہاں پر ریلوے کراسنگ تو موجود ہے، مگر نہ ہی پھاٹک ہے اور نہ ہی کوئی پھاٹک والا موجود ہوتا ہے۔
اس صورتحال کے بارے میں اس سے پہلے کئی رپورٹس میں اس خطرناک پھاٹک کی نشاندہی کی جا چکی ہے لیکن ریلوے سکھر ڈویژن کی انتظامیہ نے اس پر کبھی توجہ دینا مناسب نہیں سمجھی۔