ہم پچھلے 75 سالوں سے پڑھتے آ رہے ہیں کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔
یہ صرف ایک خواہش ہی رہی کہ قومی زبان کو سرکاری و دفتری سطح پر رائج کیا جائے، مگر اس سے پہلے کہ اردو کا نفاذ ممکن ہوتا، ہماری قومی زبان اردو پر رومن رسم‌الخط کے خطرات منڈلانے لگے۔دورِ حاضر پر نظر ڈالیں تو ہمیں انگریزی سے زیادہ رومن رسم‌الخط سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔

نئی نسل اردو لکھنا بھولتی جا رہی ہے، اور قوم ہر گزرتے دن کے ساتھ رومن رسم‌الخط کی عادی بنتی جا رہی ہے۔آج اگر ہم سماجی ذرائع ابلاغ پر نظر ڈالیں یا اپنے حلقۂ احباب کا مشاہدہ کریں، تو اکثریت رومن رسم‌الخط میں پیغام رسانی کرتی نظر آتی ہے۔

اب نوجوان نسل کو رومن رسم‌الخط میں لکھنا تو آسان لگتا ہے، مگر اردو رسم‌الخط میں لکھنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔
مختلف حلقوں میں موجود نامور ادبی شخصیات کو دیکھیں تو بہت کم ایسے افراد ہیں جو اردو رسم‌الخط میں پیغامات لکھتے ہیں۔

وہ ادیب اور مصنفین، جنہیں اردو نے شہرت بخشی اور آج بھی دے رہی ہے، وہ بھی رومن رسم‌الخط یا انگریزی میں لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، حالانکہ اردو ادب سے منسلک لکھاریوں پر زیادہ ذمّے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اردو کو ترجیح دیں اور محبت سے اسے اپنائیں۔

آج، بحیثیتِ پاکستانی، ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے اگر ہم اپنی قومی زبان اردو کو عزت اور ترجیح نہیں دیں گے، تو کون دے گا؟

Shares: