رن مرید ۔۔۔ دوسرا رخ — ستونت کور

0
61

کافی عرصہ ہوا کسی رسالے میں پڑھا تھا کہ :

اگر انسان کو ماں سے محبت ہو تو۔۔۔ عبادت۔

باپ سے محبت ہو تو۔۔۔ فرض۔

بھائی سے محبت ہو تو۔۔۔ اخوت ۔

بہن سے محبت ہو تو ۔۔۔ شفقت۔

کام، کاروبار سے محبت ہو تو۔۔۔ احساسِ ذمہ داری ۔

ملک سے محبت ہو تو ۔۔۔ حب الوطنی ۔

اور اگر ۔۔۔۔ بیوی سے محبت ہو تو لوگ کہتے ہیں "رن مرید ہے ” یا ” بیوی کے نیچے لگ گیا ہے ۔”.

اور یہ حقیقت ہے کہ اس معاشرے میں ‘محبوبہ/گرل فرینڈ’ کے لیے شعر لکھنا اور ‘بیوی’ پر عجیب و غریب لطیفے بنانا، پوسٹ کرنا باضابطہ ٹرینڈ بن چکا ہے۔

کسی شخص کو رن مرید کا طعنہ دینے والے عام طور پر دو لوگ ہوتے ہیں ۔

1- دوست ۔
2- اہلِ خانہ ۔

کسی شخص کو بیوی سے محبت و الفت پر رن مرید کا طعنہ دینے والے اکثر اس کے دوست ہوتے ہیں ۔۔۔ لیکن یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ :

یا تو خود "سرٹیفائیڈ سنگل” ہوتے ہیں کوئی انہیں اپنی بیٹی تو دور کی بات اپنی بائیک بھی مستعار دینے پر راضی نہیں ہوتا۔

یا پھر اس قسم کے شادی شدہ کے جن کی شادی منگل سوتر باندھنے کے بجائے "نرڑ” باندھنے کے مترادف ہوتی ہے ۔۔۔۔ (نرڑ : کسی سرکش بکروٹے، وچھے یا کٹے کو قابو میں رکھنے کے لیے اس کی ٹانگ رسی کے زریعے کسی گائے، بھینس یا بیل کے ساتھ باندھ دینا ).

جن کی بیوی اگر انہیں رات موبائل میں مگن دیکھ کر ” سوجائیے ، کافی رات ہوگئی ہے ۔۔۔” کے بجائے ” مرن جوگیا، تینو موت کیوں نئیں پیندی پئی؟” جیسے الفاظ سے نوازتی ہیں۔

یعنی جن کی عمر بھر اپنی بیوی کے ساتھ نہیں بنتی انہوں نے ظاہر ہے جیلس ہونا ہی ہے کسی دوسرے کو بیوی کے ساتھ ہنستا بستا دیکھ کر ۔

تو احباب !! اگر کوئی دوست یا کولیگ کہے کہ آپ رن مرید ہو تو کہنا ” میری ایک ہی اکلوتی لاڈلی بیوی ہے۔۔۔ اب اس سے پیار نہ کروں تو کیا تمہاری بیوی سے عشق لڑاؤں؟ کمال کرتے ہو پانڈے جی!”

اور پھر آجاتے ہیں گھر والے ،

ایکچولی سب سے زیادہ تکلیف تو ماؤں کو ہوتی ہے ۔۔۔ یعنی جو مائیں "چاند سی بہو” کو ” بڑی چاہ سے ” لائی ہوتی ہیں ۔۔۔ ایک ماہ بعد انہیں لگتا ہے کہ ” یہ ڈائن ہے جس نے میرے بیٹے پر تعویز کرکے اسے اپنے بس میں کرلیا ہے .”

ارے آنٹی جی۔۔۔۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ کا بیٹا پوری عمر بچہ ہی بنا رہے ؟ آپکی گودی میں بیٹھا رہے اور آپ پوری عمر اسے لوری سناتی رہیں ؟

بھئی۔۔۔ اگر آپ کا بیٹا کسی غیر لڑکی کے ساتھ وقت گزارتا تو تشویش کی بات تب تھی۔۔۔ اپنی ‘سگی’ بیوی کے ساتھ کچھ وقت بِتا لے ، اس کے ساتھ گھومنے پھرنے چلا جائے یا اسے کوئی گفٹ خرید کر دے تو ان ذیابیطس زدہ بڈھی کھوسٹ کُٹنیوں کو لگتا ہے کہ ” بیٹا ہاتھ سے نکل گیا ہے۔”

تو احبابِ گرامی ، اگر آپ کو کوئی ” رن مرید” کہے تو مسکرا کر جواب دیں کہ کسی شُف شُف پیر یا ” سائیں رکشہ ساڑ” کا مرید بننے سے اچھا ہے کہ بنا رن مرید ہی بنا رہے۔

بشکریہ : آل برصغیر انجمنِ بیگمات ۔

Leave a reply