محب العلما، محب المساجد عبدالمجید غازی۔ سعادت کی زندگی سعادت کی موت

hafi masood ahar

محب العلما، محب المساجد عبدالمجید غازی۔ سعادت کی زندگی سعادت کی موت
ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر
انسان کی زندگی خواہ کتنی ہی لمبی ہی کیوں نہ ہو وہ ختم ہونے والی اور زوال پذیر ہے، بقاءوہمیشگی اللہ کی ذات کو ہے اور آخرت کی زندگی کو ہے جو ابدی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: البتہ آخرت کے گھر کی زندگانی ہی حقیقی زندگی ہے، کاش! یہ جانتے ہوتے۔رسول اللہ ﷺ نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی حالت اور اس کی کمتری کو بیان کرتے ہوئے بتایاکہ وہ مسافر کی طرح ہے جس نے تھوڑی دیر کے لیے آرام کیاپھر کچھ دیردرخت کے سایہ کے نیچے سو گیا پھر وہاں سے کوچ کیا اور اس جگہ کو چھوڑدیا۔البتہ بہترین زندگی وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں گزرے اور بہترین موت وہ ہے جو اسلام کی حالت میں آئے جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا وقت ِ آخرت ہے وہ اپنی ساری آل اولاد کو جمع کرتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد تم کس کی عبادت کرو گے تو سب نے ( بالاتفاق ) جواب دیا کہ ہم اس کی عبادت کریں گے کہ جس کی آپ اور آپ کے بزرگ ابراہیم واسماعیل واسحاق عبادت کرتے آئے ہیں یعنی وہی معبود برحق جو وحدہ لاشریک ہے اور ہم اس کی ( اطاعت ) پر قائم رہیں گے ۔ اپنے بیٹے کو دین اسلام پر قائم رہنے اور اعمال صالحہ کی تلقین حضرت لقمان علیہ السلام نے بھی کی تھی بلکہ سورة لقمان اس لحاظ سے پورے قرآن مجید میں ممتاز ہے کہ اس میں درمند والد کانمونہ ہے جو اپنے بیٹے کو دین وایمان پر قائم رہنے کی تاکید کرتا ہے اور اس کو دین کے اہم اصول بتاتا ہے کہ اس پر چل کر وہ اپنی دینی اور دنیوی دونوں قسم کی زندگی سنوار سکتا ہے ۔

ہمارے بہت ہی پیارے عزیز از دل وجان دوست اور بھائی جناب عبدالمجید غازی بھی اپنی ذاتی زندگی اور اولاد کے معاملے میں ایک ایسے ہی انسان تھے۔ انھوں نے ساری زندگی شریعت کی پاسداری اور دین کی علمبرداری میں گزاری۔ وہ حقیقی معنوں میں علماکے خادم تھے ۔بہت ہی نیک ، صالح اور بے لوث انسان تھے ،ان کا دل مساجد اور علما کے ساتھ ایسے تھا جیسے شمع کے ساتھ پروانہ اور پھول کے ساتھ خوشبو ہوتی ہے ۔ انھیں مملکت سعودی عرب کے ساتھ بھی جنون کی حد تک محبت تھی۔ وہ 1992 ءسے یعنی عرصہ 30 سال سے جامع الامیر فیصل بن فہد الریاض سعودی عرب کے خطیب فضیلة الشخ عبدالسلام کے ہاں مشرف العمال کے طور پر مصروف عمل تھے۔غازی عبدالمجید دین کے رشتے اور تعلق کی بنا پر مملکت سعودی عرب سے بے لوث محبت کرتے اور اسے اپنا اصلی گھر قرار دیتے تھے ، وہ آرزو مندتھے کہ زندگی کی آخری سانس تک مملکت سعودی عرب کا ساتھ نہ چھوٹے۔

عبدالمجید غازی چند ماہ قبل اولاد کے شدید اصرار پر پاکستان تشریف لائے تو یہاں ان کی طبیعت ناساز ہوگئی فوراََ واپسی کی خواہش کا اظہار کیا اولاد، دوست احباب کے شدید اصرار کے باوجود بھی پاکستان میں رکنے پر رضامند نہ ہوئے۔ فرمایا کرتے تھے سعودی عرب کلمہ طیبہ کا ملک ہے ، اس کے پر چم پر بھی کلمہ طیبہ جگمگا رہا ہے، میں اسی پاک سر زمین پر زندگی کے آخری ایام گزار کر دفن ہونا پسند کروں گا ۔غازی عبدالمجید کی سعودی عرب کے ساتھ درحقیقت دین کی وجہ سے تھی ۔ مجھ سمیت تمام دوست احباب نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح علاج معالجہ کے لیے ہی چند دن پاکستان رک جائیں لیکن مصر رہے کہ میں نے ہر صورت واپس جانا ہے۔اولاد اور دوست واحباب کے شدید اصرار کے باوجود بھی رکنے پر آمادہ نہ ہوئے واپس کی ٹکٹ کنفرم کروائی اور سعودی عرب تشریف لے گئے ۔

رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں جناب عرفان غازی جو کہ ہمارے عزیز از جان دوست عبدلمجید غازی کے فرزند ارجمند ہیں اس اعتبار سے وہ ہمارے بھتیجے بھی لگتے ہیں اور ہمارے ساتھ ہمیشہ محبت واحترام سے پیش آتے ہیں ۔۔۔اپنے دوستوں جناب غلام محمد، جناب ڈاکٹر عبید الرحمان اور جناب نصیر احمد ناصر میری خصوصی دعوت پر بہاولپور سے خانیوال افطاری کے لیے تشریف لائے تو عرفان غازی کو ہم نے بہت افسردہ ، رنجیدہ اور نمدیدہ سا پایا۔ استفسارپر فرمانے لگے کہ والد گرامی ریاض میں شدید علیل ہیں اور میں فوری طور پر سعودی عرب جانا چاتاہوں۔ ہم نے پوچھا کب رخت ِ سفر کاارادہ ہے ؟ فرمانے لگے کہ اگر آج ہی ویزہ لگ جائے تو میں ابھی ہی روانہ ہونا چاہتا ہوں۔اسلئے کہ والد گرامی کی بیماری کے بعد ایک پل بھی ان سے دور رہنا میرے لئے ممکن نہیں ہے ۔بلاشبہ سعادت مند اولاد کی اپنے ماں باپ سے ایسی ہی محبت کرتی ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ ان شاءاللہ العزیز پہلی فرصت میں ویزہ لگوانے کی کوشش کرتا ہوں چنانچہ تین چار دن کے اندر اندر ویزہ لگوایا اور پہلی میسر فلائیٹ کی ٹکٹ اوکے کرواکر غازی صاحب کو اطلاع دی کہ سفر کی تیاری کریں آپ کا ویزہ اور ٹکٹ اوکے ہے۔

25 اپریل کوعرفان غازی والد گرامی کی عیادت اور خدمت کے لیے الریاض سعودی عرب تشریف لے گئے۔اس کے کچھ ہی دن بعدہمارے دوست جناب غلام محمد اور جناب ڈاکٹر عبید الرحمان نے یہ جانکاہ خبر سنائی کہ عرفان غازی صاحب کے والد گرامی سعودی عرب میں بقضائے الہی وفات پاگئے ہیں۔۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔۔۔خبر سنتے ہی دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش کسی طرح اڑ کر الریاض پہنچ جاو¿ں اور مشکل وقت میں میں پیارے بھائی عرفان غازی کا غم بانٹ سکوں انہیں دلاسہ دے سکوں اور انکی معاونت کرسکوں۔ لیکن ویزہ اور سیٹ کی مشکلات کی وجہ سے یہ خواہش دل میں ہی دفن ہوگئی۔۔تاہم میں اپنے بھائی اپنے دوست کو کہنا چاہوں گا کہ اگر چہ آپ کے والد گرامی کی جدائی کے وقت ہم کوسوں دور بیٹھے تھے لیکن ہم تینوں دوست (راقم الحروف حافظ مسعود اظہر ، جناب غلام محمد صاحب ، جناب ڈاکٹر عبیدالرحمان صاحب) دلی طور پر آپکے ساتھ ہی تھے ۔۔آ پ کایہ۔۔۔۔ غم ہم سب کا غم ہے۔آپ ہمیشہ ہماری دعاوں میں شامل رہتے ہیں او ر اب بھی خصوصی طور پر شامل ہیں۔ بس ہمیں ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی رہنا چاہیے۔

عرفان غازی چونکہ زندگی میں پہلی مرتبہ الریاض سعودی عرب تشریف لے گئے تھے ۔ وہ عربی زبان سے بھی زیادہ واقفیت نہیں رکھتے تھے پہلی بار بیرون ملک سفر درپیش ہو اور زبان سے بھی زیادہ واقفیت نہ ہو تو مشکلات کااحتمال ہوتا ہے ۔۔ چنانچہ میں نے اس موقع پر سعودی عرب میں مقیم اپنے دوست احباب بالخصوص مادر علمی جامعة الامام محمد بن سعود الاسلامیہ الریاض کے محترم طلبہ سے گزارش کی کہ عرفان غازی صاحب کیساتھ رابطہ کرکے ان کے والد گرامی کی تدفین اور دیگر معاملات میں ان کی معاونت کریں، حوصلہ دیں اور نماز جنازہ میں شرکت کریں۔۔۔تاکہ۔۔۔دیار غیر میں انہیں اجنبیت کا احساس بھی نہ ہو۔ویسے الحمد للہ عرفان غازی صاحب کے چچا جان اور ان کے کزن بھی الریاض میں موجود ہیں۔۔ لہذا وہ بھی لمحہ بلمحہ عرفان غازی کے ساتھ ساتھ رہے اور سارے معاملات دیکھ رہے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی جناب عبدالمجید غازی (رحمہ اللہ تعالیٰ رحمة واسعة) کی مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے ، ان کی قبر کو منور فرمائے، جنت کے باغیچوں میں سے باغیچہ بنائے، ان کے لواحقین بالخصوص ہمارے عزیز از دل وجان دوست بھائی اور محسن جناب عرفان غازی کو صبر جمیل عطا فرمائے

مجھے بار بار جناب عرفان غازی جیسے بیٹے پر رشک آرہا ہے،کتنی محبت کرتے تھے اپنے والد گرامی کے ساتھ ، بچوں کی طرح ان کا خیال رکھتے تھے جونہی والد گرامی کی علالت کی خبر ملی تو فرمانبردار اور باپ سے بے لوث محبت کرنے والے بیٹے عرفان غازی سے صبر نہ ہوسکا ۔۔۔تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یونیورسٹی سے ایک ماہ کی چھٹی لیکر فوراََ سے پہلے اپنے والد محترم کی خدمت ،انکی عیادت اور جنت کمانے کے لیے الریاض روانہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرمانبردار بیٹے کو چند دن باپ کی خدمت کی سعادت بھی عطا فرمادی۔دعا ہے کہ اللہ تعالی تمام والدین کو جناب عرفان غازی صاحب جیسی نیک ، صالح ، والدین سے محبت اور انکی خدمت کے جذ بات سے سرشار اولاد نصیب فرمائے۔۔۔آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

Comments are closed.