سال بدلے لیکن ہم نہ بدل سکے؟
تحریر:فیصل رمضان اعوان

جنوری کی کچھ صبحیں اور کچھ شامیں گزر چکی ہیں۔ سال نو 2025ء کا آغاز ہو چکا ہے۔ یکم جنوری کو بہت دیر تک نئے سال کی مبارکباد کے فون آتے رہے۔ لفظ "مبارک” چونکہ خیر کا لفظ ہے، طبیعت پر گراں نہیں گزرتا اور اچھا لگتا ہے۔ لیکن مسلسل دن بھر اس جشنِ بے ہودہ کو یاد کرواتے رہنا اور شہر میں رات بھر شرلیاں چھوڑنے اور چھچھورے پن سے ہمیں سخت نفرت اور چڑھ ہے۔ نئے آنے والے سال کا اس طرح بے ہودہ طریقے سے استقبال کرنا اور جشن منانا ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ بس یہی کہنا کافی ہے کہ اللہ آپ کی زندگی میں آنے والے نئے سال کو آپ کے لئے خیر و برکت اور عافیت کا سال بنائے۔ ہم تو نئے سال کو بس اتنا ہی اہم سمجھتے ہیں۔ نئے سال کے استقبال کا طریقہ ہی انوکھا ہے۔ ہم بھی نجانے کس معاشرے کے پیروکار بن بیٹھے ہیں۔ پٹاخے، آتشبازی، رنگ رلیاں، مہ نوشیاں، ہمارے کرنے کے کام نہیں تو ہم ایسا کیوں کر کریں؟ لیکن خیر، ہم جدید اور تیزترین ترقی کی شاہراہوں پر ہیں۔

ہمارے گزرے ماہ و سال کیسے بیتے ہیں، ہم سب اس ستم کا شکار رہے۔ سیاسی ماحول پر ہم سے نہیں لکھا جاتا اور آج کل کا گرما گرم سیاسی ماحول تو ویسے بھی فل گرم ہے۔ ایسے میں ہمارے تخیل میں دھواں سا بھر جاتا ہے۔ ان حالات میں ہم تو کچھ لکھنے سے بھی گئے ہیں، لکھنے کی کیفیت اب بنتی ہی نہیں، تو کیسے لکھا جائے؟ آزادی رائے کا حق مکمل طور پر چھینا جا چکا ہے۔

پیارے وطن کا معاشرہ بھی کچھ عجیب سا ہوگیا ہے۔ آپ کسی بھیڑ میں چلے جائیں، جاکر کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں، ان مایوس چہروں کو ہی پڑھ لیں، اتنا ہی کافی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے دنیا بھر میں آنے والے مہلک وائرس کرونا نے تباہی مچائی۔ اس سے معاشی طور پر انتہائی مضبوط ممالک بھی متاثر ہوئے۔ سب سنبھل گئے اور بدقسمتی سے جس خطے میں ہمارا ٹھکانہ ہے، ہم آج تک نہ سنبھل سکے۔ تنکوں کی طرح بکھر کر رہ گئے۔ ہمارے ہاں اقتدار کے حصول کے لئے وہ شیطانی کھیل کھیلا جاتا ہے جسے عام آدمی سمجھ ہی نہیں سکتا۔ اور اس عام بے بس طبقے کو ایسے خوار کیا جاتا ہے کہ ان کا جینا مشکل ہو جاتا ہے۔

بجلی کے ظالمانہ بلوں کی بات کی جائے تو عام آدمی کی جان نکال دی گئی ہے۔ اتنی بے تحاشہ ناجائز دولت جمع کرکے بندر بانٹ کا شکار کی جارہی ہے۔ یہ بدترین ڈاکہ ڈال کر صرف اپنی جیبیں بھری جا رہی ہیں۔ اس ظلم کی وجہ سے صنعتیں بند ہو گئی ہیں، معاشی اعداد و شمار کو پڑھیں، آنکھیں کھل جائیں گی۔ عملی طور پر اس وقت ہم مافیا کے مکمل نرغے میں ہیں اور اس طاقتور مافیا کی سرپرستی بھی کمال سے کی جارہی ہے۔ بادشاہت کا کہنا ہے کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے، ہمارے میڈیا کے کنٹرولڈ چینل بھی یہی بتا رہے ہیں، لیکن مہنگائی کم نہیں ہوئی بلکہ مزید بڑھ رہی ہے۔ ہمارے لوگ تو ان اذیت ناک ماہ و سال سے گزر رہے ہیں، پھر کیسے جشن؟

سال نو کے ایسے بے ہودہ استقبال سے بہتر ہے رہنے دیں، بس یونہی گزرتے جائیں، گزرے اور آنے والے سال کے قصوں کو چھوڑیں۔ وقت اتنی برق رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے کہ اب تو خوف محسوس ہوتا ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ وقت کی دھول میں کھو جانے کا احساس مزید گہرا ہونے لگتا ہے۔ جو گزر گیا، وہ واپس نہیں آئے گا اور جو آنے والا ہے اس کی خبر نہیں، کیسے گزرے گا۔ رہنے دیں صاحبو، ہم ایسے جشن مناتے ہی نہیں۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ ہمارے کندھے جھکتے جا رہے ہیں، توانائیاں، طاقت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ کیا ہم آنے والے ان اذیت ناک لمحات کو پر مسرت بنانے کا یہ طریقہ درست کہہ دیں؟ ہرگز نہیں، کیونکہ زندہ رہے تو یہ ہوشیاریاں، یہ توانائیاں آنے والے سالوں میں ہمیں محتاج، کمزور، اور بیمار بنا دیں گی۔ یہ سب کتنا تکلیف دہ ہوگا؟ سال نو کے یہ جشن، یہ خوشیاں ہمیں راس نہیں آئیں گی۔

دعا ہے کہ نیا سال پوری قوم کے لیے خوشیوں کا باعث بنے، یہ گلشن مہکنے لگے اور ہم سب امن و سکون میں رہیں۔ یہ ملک امن کا گہوارا بن جائے۔ اللہ رب العزت اس ملک پر رحم فرمائے اور جینا آسان ہو جائے۔ یہ سال ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں، لیکن نجانے ہمارے دن کیوں نہیں بدلتے؟ اب تو رہبر رہزن لگتے ہیں، مسیحا فرعون بن جاتے ہیں۔
الٰہی تو کرم فرمائے
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو۔

Shares: