سبق آموز دسمبر.تحریر:اسد عباس خان

0
126

سبق آموز دسمبر.تحریر:اسد عباس خان

برصغیر میں دسمبر کی خنکی جہاں جسموں کو ٹھارتی ہے وہیں پچاس برس قبل ہوئے ہماری تاریخ کے بدترین سانحے کی ناخوشگوار یادیں بھی روح کو چھلنی کرتی ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کا خوفناک حادثہ یک لخت ظہور پذیر نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے تئیس برسوں کی تلخ کہانی ہے۔
کیا وجہ تھی کہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں دو ہزار کلومیٹر دور بنگال کے مسلمانوں اور ہم نے ذات پات، رنگ و نسل، زبان و جغرافیہ کی تفریق کیے بنا اکٹھے قربانیاں دیں۔ تاریخ کے ابواب پر نظر دوڑائیں تو معلوم پڑتا ہے کہ بنگالی مسلمانوں نے تحریک پاکستان میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ جہاں نواب آف ڈھاکہ نواب سلیم اللہ خان صاحب کی دعوت پر مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں ڈھاکہ میں عمل میں لایا گیا وہیں 1940ء میں منٹو پارک لاہور میں قرار داد پاکستان بھی شیر بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کی۔ لاکھوں افراد مہاجر ہوئے جن کی کثیر تعداد نے سابقہ مشرقی پاکستان کا رخ بھی کیا۔ اسلامی فلاحی ریاست کا سپنا آنکھوں میں سجائے کروڑوں فرزندانِ توحید نے نظریہ پاکستان ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ” کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں لیکن قائد کی جلد وفات کے بعد آنے والے سیاست دان کرسی اقتدار کے گندے کھیل میں ایسے مشغول ہوئے کہ نہ تو عوامی امنگوں کا احساس کیا اور نہ ہی ملک میں سیاسی استحکام لا سکے۔ نتیجتاً انتشار کی سیاست، نفرت انگیز بیانات، غیر منصفانہ طرز حکومت اور دوغلی پالیسیوں نے ہی اولین تفریق کے بیج بوئے۔ آہستہ آہستہ گزرتے وقت کے ساتھ جغرافیائی دوری اور لسانی فرق بھی ہمارے مجموعی عوامی رویوں پر اثر انداز ہونے لگا۔ یوں سیاسی و عسکری قیادت کی نا اہلی اور پھر ہندوستانی سازشی کردار نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جب داخلی سیاسی مفاد پرستی اور بیرونی سازشیں اپنے عروج پر پہنچیں تو بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا۔ لاکھوں کلمہ گو افراد اپنے ہی ہم عقیدہ بھائیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ لاکھوں دوبارہ مہاجر ہوئے اور آخر کار وہ گھر بھی ٹوٹ گیا جسے ہم نے باہم مل کر اپنے خون سے سینچا تھا۔ مشرقی پاکستان کا نام بنگلہ دیش جبکہ مغربی حصہ صرف پاکستان رہ گیا۔ دونوں خطوں میں علیحدگی کے بعد الگ الگ ممالک تو قائم ہو گئے لیکن پچاس سال پرانے گھاؤ ابھی تک نہیں بھرے اور سیاسی مصلحتوں کے باعث تعلقات میں سرد مہری آج تک قائم ہے۔

اور دونوں جانب لاکھوں افراد آج بھی اس بٹوارے کی قیمت چکا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں کراچی سے ایک بنگالی ماں جی کی درد ناک کہانی سوشل میڈیا کے ذریعے سنی جو لگ بھگ 35 سال بعد بنگلہ دیش میں اپنے خاندان سے ملیں۔ اس کے بعد اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے بچھڑی بیسیوں اور خواتین بھی سامنے آئیں جو پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہائیوں سے رہائش پذیر ہیں۔ اور دو طرفہ روابط نہ ہونے کے باعث اپنی مادری زبان تک بھول چکی تھیں۔ لیکن کبھی نہ مٹے والی ان دوریوں کے اندر بھی عوامی سطح پر نظریاتی ہم آہنگی اور پرخلوص محبت کے نظارے دنیا سے ڈھکے چھپے نہیں۔ چند ہفتے قبل ہی کرکٹ ورلڈ کپ میں جب پاکستان نے ہندوستان کو دھول چٹائی تو ڈھاکہ سے چٹاگانگ تک پورا بنگلہ دیش پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اور گزشتہ ماہ جب یہی پاکستانی کرکٹ ٹیم بنگلادیش کی مہمان بنی تو ہمارے بنگلہ دیشی بھائیوں نے میزبانی کا خوب حق ادا کیا۔ سڑکوں پر ہزاروں نوجوان پاکستانی کرکٹ ٹیم کے استقبال کے لیے کھڑے ہوئے۔ ہاتھوں میں پاکستانی جھنڈے لیے اور گرین شرٹ زیب تن کیے یہ نوجوان بچھڑے بھائیوں کی اٹوٹ محبت کی گواہی بن گئے۔ ڈھاکہ ٹیسٹ میچ میں ہار جیت سے بے رغبت شائقین پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے نعرے لگا رہے تھے۔ تمام تر میڈیائی ہتھکنڈوں اور بالی ووڈ میں اربوں روپوں کے بجٹ لگا کر بھی ہندوستان اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا جس کا خواب سقوط ڈھاکہ کے وقت اس نے دیکھا تھا۔ اب وقت بدل رہا ہے، پروپیگنڈے کے جال کٹ رہے ہیں اور تاریخ کا دھارا بھی یقیناً بدلے گا آج کا بنگالی نوجوانوں نظریہ پاکستان سے جڑ رہا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے پاکستان بڑے بھائی کا حقیقی کردار ادا کرتے ہوئے ماضی کے زخموں پر مرہم رکھنے میں پہل کرے۔ اس کے لیے ریاست کو بڑے دل گردے کے ساتھ خلوصِ نیت بھی درکار ہو گی سب سے پہلے پاکستان میں رہائش پذیر سقوط ڈھاکہ سے قبل کے بنگالی افراد کو قومی شناختی کارڈ جاری کریں۔ اور ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر سنیں اور ان کا مستقل حل تلاش کیا جائے۔ یقین جانیے یہ چھوٹا سا عمل بھی دِلوں کو جوڑنے اور دشمنوں کی سازشوں کو توڑنے میں بہت بھاری پڑے گا۔ اس کے علاؤہ سرکاری یا نجی سطح پر بنگالی زبان کے فروغ پر بھی کام کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوامی سطح پر باہمی روابط استوار ہوں اور ماضی میں پھیلائی گئی غلط فہمیاں دور کرنے میں آسانی ہو اور ان کا ازالہ بھی کیا جا سکے۔ ریاستی سطح پر دوطرفہ تعلقات باہمی تعاون اور تجارتی روابط بڑھانے کے ساتھ دوطرفہ آمدورفت اور ویزہ کے حصول میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے درمیان براہ راست فضائی سروس کو بھی بحال کیا جائے۔ اگر مملکت پاکستان اپنے قیام کے بنیادی نظریے پر عمل پیرا ہو جائے تو بلاشبہ ایسا کر گزرنا ناممکن نہیں۔ اس کے علاؤہ ہمیں بحیثیت مجموعی عوامی اور انتظامی رویوں پر بھی نظر ثانی کرنی ہو گی تاکہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر روشن مستقبل کی طرف قدم بڑھائے جائیں۔ اور اگر واقعی نظریہ پاکستان پر ریاستی پالیسی تشکیل دی گئی تو آئندہ کبھی دسمبر خون آشام نہیں ہو گا۔

صدائے اسد
اسد عباس خان

Leave a reply