صبر کی انتہا تحریر: حنا

پوچھا گیا۔۔۔۔
صبر جمیل کیا ھے؟
جواب آیا۔۔۔۔۔
جب تم آزمائے جا رھے ھو اور تمھارے لب پر ھو۔
“شکر الحمد للہ”
اس لیے تنقید نہیں۔۔۔ بس
“شکر الحمد للہ”

صبر ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ صبر کرنا اور صبر آنا دو مختلف باتیں ہیں۔ اسی لئے تو اللہ بھی قرآن میں فرماتا ہے۔
اِنَّ اللّـٰهَ مَعَ الصَّابِـرِيْنَ °
بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

اللّـٰهُ يَجْتَبِىٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَآءُ°
اللہ جسے چاہے اپنی طرف کھینچ لیتا ہےـ

سورۃ الشوریٰ (13)

“فَسُبحٰن الَذِِّی بِیٰدِہِ مَلَکُوتُ کُلِِّ شَئّیِِ وَّ اِلَیْہِ تُرجَعُون.”
“پاک ھے وہ ذات جس کے قبضے میں ہر شے کی قدرت ھے اور اُسی کی طرف ہم نے لوٹ کر جانا ھے
‎‏

اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْـمَعَ عِظَامَهٝ° بَلٰى قَادِرِيْنَ عَلٰٓى اَنْ نُّسَوِّىَ بَنَانَهٝ°
کیا انسان سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے۔ ہاں ہم تو اس پر قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کر دیں۔
(سورۃ القیامہ )

وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا °
اور تیرا رب بھولنے والا نہیں۔

سورۃ مریم (64

کسی بھی معاشرے میں کامیابی کے ذرائع ویسے توبے شمار ہیں لیکن موجودہ دور اور حالا ت کو دیکھتے ہوئے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ’’ صبر ‘‘ ہے، جس کے لغوی معنیٰ ہیں روکنا ، برداشت کرنا ، ثابت قدم رہنا یا باندھ دینا، صبرکی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیاکہ ’’ اور (رنج و تکلیف میں) صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، اور بیشک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر (گراں) نہیں جو عجز کرنے والے ہیں‘‘ سورۃ البقرہ، آیت45،بلاشبہ صبر اور نماز ہر اللہ والے کے لئے دو بڑے ہتھیار ہیں۔ نماز کے ذریعے سے ایک مومن کا رابطہ و تعلق اللہ تعالیٰ سے استوار ہوتا ہے۔ جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے۔ صبر کے ذریعے سے کردار کی پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے، مصیبت اور پریشانی کی حالت میں صبر اور نماز کو اپنا شعار بنانے کا حکم دیا گیا ہے کہ ا للہ تعالیٰ کی یاد میں جس قدر طبیعت مصروف ہو اسی قدر دوسری پریشانیاں خود بخود کم ہو جاتی ہیں۔

صبر کا پھل میٹھا کیسے ہوتا ہے سنیے تاریخ کے اوراق سے ایک خوبصورت واقعہ

مولانا رومی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ طالقان کے علاقے کا رہنے والا ایک شخص جس کو شیخ ابوالحسن خرقانی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کی زیارت کا بےحد شوق تها،لیکن راستے کی دوری اور سفر کی مشکلات کا خیال آتا تو خرقان جانے کی ہمت نہ پڑتی،
خیر آخر ایک دن شوق زیارت نے اس کو بےتاب کردیا ،رخ زیبا کی زیارت کے لئے سامان سفر باندھ لیا ،راستہ کٹهن و دشوار گزار تها،لیکن وہ ہمت کا پکا تها کئی دن تک پہاڑی اور جنگلی راستے سے ہوتا ہوا ایک طویل اور پر صعوبت سفر کے بعد آخر کار منزل مقصود تک پہنچ گیا،
شہر خرقان میں آکر اسنے شیخ ابوالحسن خرقانی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کے گهر کا پتا دریافت کیا ،وہاں جاکر نہایت ادب سے دروازے کی زنجیر ہلائی…تهوڑی دیر بعد ایک عورت نے گهر کی کهڑکی سے جانک کر پوچها کون ہے ؟؟
اس نے جواب دیا میں …..حضرت شیخ ابوالحسن رحمتہ الله علیہ کی قدم بوسی کے لئے شہر طالقان سے حاضر خدمت ہوا ہوں،
اس عورت نے کہا واہ میاں درویش بهلا یہ بهی کوئی مقصد تها کہ جس کے لئے تو نے اتنا طویل و کٹهن سفر طے کیا ہے ،معلوم ہوتا ہے تونے دهوپ میں اپنی داڑھی سفید کی ہے،تمہاری عقل و دانش پر رونے کو جی چاہتا ہے ،کیا تجهے اپنے وطن میں کام دهندہ نہ تها؟؟

عقیدت مند یہ ماجرا دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا اور اسکی آنکهوں سے آنسو بہنے لگ گئے،تاہم اس نے ہمت کرکے پوچها حقیقت حال کچھ بهی ہو ،یہ بتائیے کہ شیخ صاحب ہیں کہاں ؟
چونکہ وہ عقیدت کا ہاتھ تهام کر آیا تها اسلیے اس عورت کی باتوں پر خاموش رہا،
عورت نے جواب دیا :ارے وہ کہاں کا شیخ و شاہ بن گیا اس نے تو دهوکے کا جال بچها رکها ہے،تجھ جیسے احمقوں کو اپنی ولایت کے جال میں پهنساتا ہے، اب بهی وقت ہے جہاں سے آیا ہے الٹے پاوں واپس چلا جا،ورنہ اس دغاباز کے چکر میں پهنس کر تباہ و برباد ہوجائے گا ،نہ دین کا رہے گا نہ دنیا کا،وہ بڑا حضرت ہے اس کی زبان و آنکهوں میں ایسا جادو ہے کہ اچها خاصا عقل مند بهی اس کے فریب میں آجاتا ہے

اب تو شیخ کے معتقد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور کہنے لگا “چراغ تلے اندهیرا بی بی شیخ کے انوار فیوض سے ایک دنیا جگمگا رہی ہے اور ان کی عظمت نے افلاک کی رفعتوں کو چهولیا ہے”،
“چاند پر تهوکنے والا اپنے منہ پر ہی تهوکتا ہے”کتا دریا میں گر جائے تو پانی ناپاک نہیں ہوتا ،آفتا ب عالم تاب لاکھ پهونکیں ماریں وہ کبهی نہیں بجھ سکتا،چمگادڑ رات کے اندهیرے میں اڑنے والی سورج کو نکلنے سے کیسے روک سکتی ہے،غرض درویش نے شیخ کی اہلیہ کو ایسی کهری کهری سنائیں کہ وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئی،
وہ آدمی وہاں سے نکل کر شہر کے لوگوں سے شیخ کا پوچهنے لگا کسی نے بتایا کہ وہ جنگل کی طرف گئے ہوئے ہیں یہ سنتے ہی وہ راہ حق کا مسافر دیوانہ وار شیخ کی تلاش میں جنگل کی طرف روانہ ہوگیا ،راستے میں ……..شیطان نے اس کے دل میں وسوسے ڈالنے شروع کردئیے،سمجھ میں نہیں آتا تها کہ آخر شیخ نے ایسی بےہودہ بدتمیز و زبان دراز عورت کو اپنے گهر میں کیوں رکها ہے ،
عجیب معاملہ ہے! یہ میاں بیوی آپس میں کس طرح زندگی گزارتے ہونگئے
“ایک آگ ہے اور دوسرا پانی” ان مجوعہ اضراد میں محبت کیسے ہوسکتی ہے،ایسے وسوسے آتے بےچارہ گهبرا کر لاحول پڑهتا اور کانوں کو ہاته لگاتا ،
شیخ کے بارے میں ایسے خیالات کو دل میں جاگزیں کرنا نادانی ہے انہی سوچوں کا تانا بانا بنتا چلا جارہا تها کہ آخر دل نے کہا کہ اس میں کوئی بهید ہوگا وہ انہیں خیالات کی دنیا میں گم تها کہ اس کی نظر ایک شخص پر پڑی جو شیر کی پیٹھ پر اس شان سے سوار تها کہ پیچهے لکڑیوں کا گٹها لدا ہوا ہے اور ہاتھ میں سیاہ سانپ کا کوڑا ہے،
عقیدت مند سمجھ گیا کہ یہی شیخ ابو الحسن خرقانی رحمتہ الله علیہ ہیں اس سے پہلے کہ یہ کچھ عرض کرتا ،شیخ صاحب نے دور سے ہی مسکراتے ہوئے فرمایا :
عزیزم ! اپنے فریبی نفس کی باتوں میں نہ آ،اور ان پر دهیان نہ دے،ہمارا اکیلا پن اور جوڑا ہونا نفس کی خواہش کے لئے نہیں ہے، الله عزوجل کے حکم کی تعمیل کے لئے ہے،ہم اس جیسے سینکڑوں بےوقوفوں کا بوجھ برداشت کرتے ہیں،
یہ گفتگو میں نے تمہاری خاطر کی ہے تاکہ تو بهی بدخو ساتهی سے بنائے رکهے،تنگی کا بار ہنسی خوشی برداشت کر ،کیونکہ صبر کشادگی کی کنجی ہے،
الله تعالی نے مجهے یہ بلند مقام اپنی بیوی کی بدزبانی پر صبر کرنے کی وجہ سے عطا فرمایا ہے اگر میں اسکی ہرزہ سرائی برداشت نہ کرتا تو یہ شیر میرا مطیع کیسے ہوتا،
گر نہ صبر میکشیدے بار زن
کے کشیدے شیر نر بیگار من
“اگر میرا صبر اس عورت کا بوجھ نہ اٹها سکتا تو یہ شیر میرا بوجھ کیسے اٹهاتا”!!.
*مولانا رومی رحمتہ الله علیہ اس واقعہ سے یہ درس دے رہے ہیں کہ انسان کو ہر حال میں راضی بہ رضائے الہی رہنا چاہیئے اور صبر و شکر سے کام لینا چاہیئے ،یقینا صبر کرنے سے ہی اعلی مقامات عرفان حاصل ہوتے ہیں،

Comments are closed.