مٹی ملے گدلے پانی کو کسی برتن میں رکھ دیں اسے کچھ وقت دیں تو اس کی مٹی آہستہ آہستہ تہہ پر بیٹھ جاتی ہے. آپ زندگی کی سائنس اگر جانتے ہوں تو یہی کام پھٹکری یعنی ایلم زیادہ جلدی کر لیتا ہے. کیونکہ ایلم پانی کی اساسیت سے مل کر ایک جیلیٹن ایفیکٹ بناتا ہے جو پانی میں موجود ذرات کو اپنی طرف کھینچ کر تہہ پر بیٹھ جاتا ہے.
یہی صبر اور شُکر ہے. زمین پر موجود ہر مسافر انسان کے اس سفر کا زاد راہ ہے. صبر ہمارے پر اُمید انتظار کا نام ہے اور شُکر بندگی کی سائنس ہے. صبر ہمیں وقت سکھا دیتا ہے لیکن شُکر ہمیں خود سیکھنا ہوتا ہے. ہماری اکثریت شُکر پر بلکل ویسے ہی کنفیوز ہوتی ہے جیسے یہ سائنس پر ہو جاتی ہے. شکر کوئی قرض نہیں ایک احسان ہے.
قرض ایک حساب ہے. جبکہ احسان ایک احساس ہوتا ہے. قرض بھلے کوئی مال ہو اسباب ہو خدمت ہو اسکا حساب ممکن ہے. اور لوٹایا بھی جا سکتا ہے. احسان جب کے بس ایک احساس ہوتا ہے جو ہم تسلیم کر لیتے ہیں. جیسے ماں باپ کی اپنی اولاد سے محبت ایک احسان ہے. آپ زندگی بھر یہ احسان اتار ہی نہیں سکتے.
ہمارا یہ تسلیم کرنا شکر ہے. جب ہم اللہ رب العزت کے خود پر احسانات شمار کرنے شروع کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے یہ بے حساب ہیں. یہی احساس ہماری ذات کی پوشیدہ بنیادوں میں وہ کیفیت تخلیق کرتی ہے جو سوچ و شخصیت کے آلودہ ذرات کو صاف کر کے ہماری سوچ کو شفاف بنا دیتی ہے. یہی شفافیت وہ فوکس یا ارتکاز دیتی ہے جو روح کو سیراب و مطمئن رکھتی ہے.
قرآن سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 147
مَا يَفۡعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمۡ اِنۡ شَكَرۡتُمۡ وَاٰمَنۡتُمۡ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِيۡمًا ۞
اگر تم شکر گزار بنو اور (صحیح معنی میں) ایمان لے آؤ تو اللہ تمہیں عذاب دے کر آخر کیا کرے گا ؟ اللہ بڑا قدردان ہے (اور) سب کے حالات کا پوری طرح علم رکھتا ہے۔