سابق وزیر اعلی پنجاب ،پیپلز پارٹی کے رہنما میاں منظور احمد وٹو وفات پا گئے ہیں
سابق وزیر اعلی پنجاب منظور احمد وٹو طویل علالت کے بعد وفات پا گئے انہیں حویلی لکھا سے لاہور ہسپتال لایا جا رہا تھا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گئے انکی نماز جنازہ کل انکے آبائی علاقے حویلی لکھا میں صبح 10 بجے ادا کی جائے گی،

میاں منظور احمد وٹو کی وفات پر سیاسی رہنماؤں نے اظہار افسوس کیا ہے اور لواحقین کے لئے صبرجمیل کی دعا کی ہے،صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے سینئر سیاستدان میاں منظور احمد وٹو کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ،کہامیاں منظور احمد وٹو نے بطور اسپیکر پنجاب اسمبلی، وزیراعلیٰ پنجاب، وفاقی وزیر اور مختلف اہم سیاسی ذمہ داریوں میں عوامی خدمت اور قومی ترقی کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں،مرحوم نے بطور ایک سینئر سیاستدان جمہوری اداروں کے استحکام اور علاقائی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کیا،مرحوم کی دانائی، قیادت اور قومی یکجہتی کے لیے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی،صدرِ مملکت نے دعا کی کہ الّلہ تعالیٰ مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا کرے۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نےسابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہارکیا ہے، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے میاں منظور وٹو مرحوم کی سیاسی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کیا، وزیراعلیٰ کی جانب سے مرحوم کے لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا گیا، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ میاں منظور وٹو مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دے، اہلِ خانہ اور پسماندگان کے لیے صبرِ جمیل کی دعا کی گئی.

سینئر سیاسی رہنما میاں منظور احمد وٹو کے انتقال پر وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال کا گہرے رنج و دکھ کا اظہار،وفاقی وزیر نے مرحوم کی عوامی خدمات، جمہوریت کے استحکام میں کردار اور پارلیمانی روایات کے فروغ میں ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔

سیکرٹری جنرل پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین سید نیر حسین بخآری نےسینیر سیاستدان سابق وزیراعلی پنجاب میاں منظور احمد وٹو کے انتقال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ مرحوم منظور وٹو نے بطور اسپیکر و وزیراعلی پنجاب وفاقی وزیر گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔میاں منظور وٹو مرحوم وضعدار شخصیت تھے۔

میاں منظور وٹو اوکاڑہ کے وٹو خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وٹو خاندان اوکاڑہ میں معاشی اور سیاسی لحاظ سے کافی مضبوط ہے۔ اس کے دیگر افراد میں سابق وزیر خزانہ میاں یسین خان مرحوم، میاں معین وٹو ایم این اے 144 اور میاں خرم جہانگیر شامل ہیں۔ میاں منظور وٹو پاکستانی سیاست میں بڑا نام ہیں وہ متعدد عہدوں پر فائز رہے جس میں وزیر اعلیٰٰ پنجاب ، اسپیکر پنجاب اسمبلی اور وفاقی وزیر امور کشمیر رہے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں میاں معین وٹو سے شکست کھائی۔میاں منظور احمد خان وٹو نے سیاسی کیرئر کا آغاز آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ کر کیا اس سے پہلے 1977ء میں ذو الفقار علی بھٹو نے ان کو پیپلز پارٹی کا ٹکٹ دیا مگر بعد ازاں یہ ٹکٹ ان سے واپس لے کر غلام محمد مانیکا کو دیدیا گیاجس پر میاں منظور احمد وٹو نے آزاد حیثیت سے یہ الیکشن لڑا اور ہار گئے۔

اس کے بعد میاں منظور احمدوٹو ائر مارشل اصغرخان کی تحریک استقلال میں شامل ہو گئے۔ 1982ء میں ہونیوالے غیر جماعتی انتخابات میں میاں صاحب جیت کر ممبر ضلع کونسل بن گئے ان دنوں ساہیوال ضلع تھا مگر ان کے ارکان ضلع کونسل بننے کے ایک سال بعد 1983 میں اوکاڑہ کو بھی ضلع کی حیثیت مل گئی اور اس کیساتھ ہی میاں منظور احمد وٹو چیئرمین ضلع کونسل بھی بن گئے۔اس کے بعد 1985ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتنے کے بعد منظور احمدوٹو ایم پی اے بن گئے یوں اس وقت ان کے پاس ضلع کونسل کی چیئرمینی بھی تھی اور ممبر صوبائی اسمبلی بھی تھے اور یہی نہیں اسی برس میاں منظور احمدوٹو سپییکرصوبائی اسمبلی بھی بن گئے جس پر انھوں نے ضلع کونسل کی چیئرمین شپ چھوڑ دی اور انہی کے بھائی میاں احمد شجاع چیئرمین ضلع کونسل بن گئے۔اس کے بعد 1988ء میں بھی میاں منظور وٹو پر قسمت مہربان ہوئی اور وہ پہلے ایم پی اے بنے اور پھر سپیکر بنجاب اسمبلی بھی بن گئے۔1990ء کے انتخابات میں وٹو صاحب ایم این اے بھی بن گئے اور حویلی لکھا سے ایم پی اے بھی بن گئے۔ تاہم انھوں نے پارٹی کے کہنے پر ایم این اے کی سیٹ چھوڑ دی جس پر راؤ قیصر ایم این اے منتخب ہو گئے اور خود ایم پی اے کی بنا پر تیسری مرتبہ پھر سپیکر پنجاب اسمبلی بن گئے۔

ابھی انہی کی حکومت تھی کہ 1993ء میں وزیر اعلیٰٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروا کر میاں منظور احمدوٹو خود وزیر اعلیٰٰ پنجاب بن گئے تو اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اس طرح منظور احمد وٹو کی وزارت اعلیٰ بھی ختم ہو گئی۔مگر اس اقدام پر غلام حید روائیں سپریم کورٹ چلے گئے جس پر سپریم کورٹ نے اسمبلیاں بحال کر دیں اس طرح میاں منظور احمد وٹو ایک بار پھر وزیر اعلیٰٰ کی مسند پر براجمان ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اس کے بعد 1993ء کے انتخابات میں میاں منظور احمد وٹو نے تاندلیانوالہ سے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی نے یہاں بھی ان کے قدم چومے بعد ازاں ان کی جونیجو لیگ نے پیپلز پارٹی کیساتھ الحاق کر لیا اور پیپلز پارٹی نے ان کو پنجاب کا وزیر اعلیٰٰ بنا دیا۔ اور ڈھائی سال تک اس کے وزیر اعلیٰٰ رہے اس کے بعد مرکز اور صوبے کی لڑائی میں ان کی وزارت اعلیٰ جاتی رہی اور بینظیر بھٹو نے سردار عارف نکئی کو وزیر اعلیٰٰ بنا دیا مگر صرف چھ ماہ بعد ہی فاروق لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔

1995ء میں میاں منظور احمدوٹو نے مسلم لیگ (جناح)کے نام سے اپنی پارٹی بنالی تاہم 1997ء کے الیکشن میں جیت نہ سکے بلکہ اس عرصے میں نیب نے ان کے خلاف شکنجہ کسا اور پانچ سال تک کرپشن الزامات میں جیل میں رہے۔ تاہم اس کے باوجود ان کے بیٹے میاں معظم وٹو نے ایم پی اے کی سیٹ پر الیکشن جیت لیا اور 2001ء کے لوکل باڈی الیکشن میں جب کہ منظور وٹو جیل میں تھے مگر ان کا بیٹا میاں خرم جہانگیر وٹو تحصیل ناظم منتخب ہو گیا۔2002ء میں میاں منظور وٹو جیل سے باہر آگئے اور اس سال ہونیوالے عام انتخابات میں ان کی بیٹی روبینہ شاہین وٹو ایم این اے منتخب ہو گئیں۔

2008ء کے انتخابات میں میاں منظور احمدخان وٹو دیپالپور اور حویلی لکھا دونوں جگہ سے ایم این اے منتخب ہو گئے جس پر این اے 146دیپالپور کی سیٹ انھوں نے اپنے پاس رکھی جبکہ حویلی کی سیٹ چھوڑ کر اپنے بیٹے خرم جہانگیر کو وہاں سے منتخب کروا دیا۔ اور اسی برس میاں منظور احمد وٹو پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں میاں منظور وٹو کو انڈسٹری کی وزارت دے دی گئی جبکہ ان کے بیٹے میاں خرم جہانگیر وٹو پارلیمانی سیکرٹری بن گئے۔اسی دور میں جب سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ ختم کی تو نئے وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے ان کو کشمیروبلتستان کا وزیر بنا دیا۔

Shares: