صدر مملکت نے انسدادِ ریپ آرڈیننس2020 کی منظوری دیدی
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق صدر مملکت عارف علوی نے انسدادِ ریپ آرڈیننس2020 کی منظوری دیدی ،
آرڈیننس کے تحت خواتین اور بچوں سے زیادتی کے معاملات کو جلد نمٹانے میں مدد ملے گی۔ جنسی زیادتی کے ملزمان کے جلد ٹرائل اور کیسز نمٹانے کیلئے اسپیشل کورٹس قائم کیے جائیں گے ،خصوصی عدالتیں 4 ماہ کے اندر جنسی زیادتی کے کیسز کو نمٹائیں گی آرڈیننس کے تحت وزیراعظم انسدادِ جنسی زیادتی کرائسز سیلز کا قیام عمل میں لائیں گے
کرائسزسیل 6 گھنٹے کے اندر اندر میڈیکو لیگل معائنہ کرانے کا مجاز ہو گا،نادرا کی مدد سے قومی سطح پر جنسی زیادتی کے مجرمان کا رجسٹر تیار کیا جائے گا آرڈیننس کے تحت متاثرین کی شناخت ظاہر کرنے پر پابندی اور قابلِ سزا جرم قراردیا گیا ہے،
قبل ازیں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس دوران زیادتی کے واقعات کی روک تھام کیلئے قانون سازی پر بحث کی گئی ، اجلاس میں مجرمان کی سخت سزاﺅں پر مشتمل سفارشات کی منظور ی دیدی گئی ہے جبکہ زیادتی کے مجرمان کیلئے کیسٹریشن کا قانون لانے کی بھی منظوری دیدی گئی ہے ۔
وزیراعظم عمران خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سنگین نوعیت کا معاملہ ہے ، قانون سازی میں کسی قسم کی تاخیر نہیں کریں گے ، عوام کے تحفظ کیلئے واضح اورشفاف اندازمیں قانون سازی ہوگی، یقینی بنایا جائےگاکہ سخت سے سخت قانون کا اطلاق ہو۔
اجلاس میں کچھ وزراء نے زیادتی کے مجرمان کوپھانسی کی سزا قانون کاحصہ بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ زیادتی کے مجرمان کو سرعام پھانسی دی جائے ، فیصل واوڈا،اعظم سواتی اورنورالحق قادری نے بھی پھانسی کی حمایت کی ۔ اس موقع پر عمران خان نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ ابتدائی طورپرکیسٹریشن کے قانون کی طرف جانا ہوگا۔
اس حوالے سے قانون سازی کےلئے وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر ڈاکٹر بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایک ماہ تک مسلسل دن رات کام کیا۔ قانون سازی کے عمل میں پارلیمانی سیکرٹری بیرسٹر ملائیکہ بخاری، سیکرٹری قانون راجہ نعیم اکبر اور ”اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن و ٹرائل) آرڈیننس 2020“ اور ”کریمنل لاء(ترمیمی) آرڈیننس 2020“ کو حتمی شکل دینے کےلئے کنسلٹنٹ بیرسٹر عنبرین عباسی نے معاونت کی۔
دونوں قوانین پاکستان کے عالمی سطح پر کئے گئے عہد کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معاہدوں کے بھی عین مطابق ہیں۔ یہ قوانین خواتین اور بچوں کے ساتھ ہونے والے زیادتی اور جنسی استحصال جیسے ظالمانہ جرائم کی روک تھام کےلئے طریقہ کار وضع کرتے ہیں۔”اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن و ٹرائل) آرڈیننس 2020“کی چیدہ چیدہ خصوصیات میں خصوصی عدالتوں کا قیام،ایف آئی آرکا اندراج، طبی معائنے اور فرانزک تجزیئے کے لئے کمشنر/ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں ”اینٹی ریپ کرائسزسیلز“ کا قیام،طبی معائنہ کے دوران عصمت دری کا شکار افراد کے کنوارہ پن کی غیر انسانی طریقے سے جانچ پڑتال یا متاثرہ کا کسی بھی قسم کے امکانی تعلق ظاہر ہونے کی شرائط کا خاتمہ ہیں،ملزم کے ذریعے زیادتی کا نشانہ بننے والے شخص کی جرح پر پابندی ہوگی۔ اس طرح جرح کی اجازت صرف متعلقہ جج یا ملزم کے وکیل کو ہو گی۔
عدالتی کارروائی ”اِن کیمرہ “ ہو گی۔زیادتی کا شکار افراد کے گواہ اور مقدمہ کے گواہان کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ مقدمات کی تفتیش اور کارروائی کے دوران جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بنانا شامل ہے ۔متاثرہ شخص کو مجاز حکام کے ذریعے قانونی معاونت اور اعانت کی فراہمی،متاثرین کی مدد کےلئے خود مختار مشیروںکی تشکیل،خصوصی عدالتوں کے لئے خصوصی پراسیکیوٹرز کی تعیناتی،ڈسٹرکٹ پولیس افسران کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹیوں کی تشکیل اورمقدمے پرآئین کی مکمل عملداری کی دیکھ بھال کےلئے خصوصی کمیٹی کی تشکیل شامل ہے۔
وزیراعظم کے احکامات کی روشنی میں خصوصی کمیٹی کی جانب سے طبی قانونی جانچ پڑتال، تفتیش اور استغاثہ کےلئے رہنمائی فراہم کرنے کے عمل میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بنانا،جنسی زیادتی کرنے والے مجرموں کے ڈیٹا کا اندراج نادرا کے ذریعے کروانا ،خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم جیسی لعنت کی روک تھام کےلئے عوامی حمایت کے حصول کے لئے ”پبلک رپورٹنگ میکنزم“ کا قیام بھی آ رڈیننس کا حصہ ہے۔
دوسرا دستاویزی آرڈیننس ”کریمنل لاء(ترمیمی) آرڈیننس 2020“ کی چیدہ چیدہ خصوصیات میں تعزیرات پاکستان کی شق 375 کی تشریح متبادل لفظ ”ریپ“ کے ساتھ کی گئی ہے جس میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کےلئے عمر کی حد ختم جبکہ مرد کےلئے زیادہ سے زیادہ عمر 18 سال تصور کی جائے گی