آپ کا معمول تھا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر اکثر جایا کرتے تھے ایک بار ایسا ہوا کہ چھوٹا عمیر اپنی چ|یا کے مرجانے کی وجہ سے پریشان بیٹھا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کا دل بہلانے کے لیے) فرمایا: ياأباعمير مافعل النغیر تیری چڑیا کیا کرگئی؟
یہی نہیں بلکہ جہاد سے واپس آتے یا گلی میں کھیلتے بچے نظر آتے آپ انہیں سلام کہتے، سواری پہ بٹھالیتے، حسن و حسین رضی اللہ عنہما دوران نماز آپ کی پیٹھ چڑھ جاتے جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلتا کہ میرے ساتھیوں میں سے کسی کے ہاں اولاد ہوئی ہے آپ انكے گھر جاتے برکت کی دعا کرتے، اپنے ہاتھ سے بچے کو گھٹی دیتے خود نام رکھتے.
ایک بار أقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ حسن یا حسین رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوسہ دے رہے ہیں أقرع رضی اللہ عنہ کہنے لگے میرے دس بچے ہیں میں کبھی ان سے پیار نہیں کیا.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے دل سے اللہ تعالیٰ نے محبت نکال دی ہو تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا بچوں سے متعلق فرمان ہے
جو ہمارے چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں.
اس سے بڑھ کر دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچے سے اجازت طلب کرتے ہیں کہ باری اور حق تو تمہارا ہی کیا میں تم سے بڑے شخص کو دودھ دے دوں؟
یہ اسلامی تعلیمات ہی ہیں کہ بچوں اور بالخصوص بچیوں کو حقوق عطا کیے اور معاشرے میں برابری کا حق بھی دیا، اولاد کی بہتر تربیت کے فضائل بھی بتائے. ان اصولوں کو دیکھیں اور دوسری طرف انسانوں کے ظلم اور زیادتیوں کو دیکھیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے، کیا بس دنوں کا خاص کردینا ہی معصوم کلیوں پر کیے جانے والے ظلم، جبر اور زیادتیوں کے داغ مٹانے کے لیے کافی ہیں؟
بچے کو معصوم پھول ہیں جو ہاتھ لگانے سے میلے ہوجائیں آج درندوں وحشیوں سے محفوظ نہیں اور ان وحشیوں کی پشت پناہی کرنے والے ہی ان معصوم جانوں کے لیے خصوصی دن منارہے ہوتے ہیں.
عالمی ادارہ بہبود اطفال کی رپورٹس پڑھیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیںعالمی ادارہ لکھتا ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں دس لاکھ بچے جیلوں میں قید ہیں اور ان کے جرم قتل، ڈکیتی فسادات نہیں بلکہ معمولی معمولی جرائم پر انہیں قید کررکھا ہے.
کشمیر، افغانستان، عراق شام، فلسطین کے بچے تو کسی گنتی میں ہی نہیں ہیں کیونکہ وہ کونسا کسی جیل میں قید ہیں.ادارہ اپنی رپورٹ میں مزید انکشاف کرتا ہے کہ ایک کروڑ سترہ لاکھ بچے ایسے ہیں جن سے جبری مشقت لی جاتی ہی ہے. یہ مہذب کہلانے والی اقوام کے کالے کرتوت ہیں.
یہی نہیں بلکہ ہر سال تین لاکھ بچے اسمگل کیے جاتے، جنہیں جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے، میں پوچھتا ہوں کون کسے بیچتا ہے؟کیا دنیا میں کوئی قانون نہیں؟ کیا اہل دنیا یہ سب نہیں جانتے؟
یقیناً سب جانتے ہوئے ہر ایک آنکھیں بند کیے ہوئے ہے.سب سے بڑھ کر حیرت ناک اور پتی ان کردینے والے اعداد و شمار ان بچوں سے متعلق ہیں جو جنگ زدہ علاقوں میں رہتے ہیں. یہ تعداد 415 ملین ہے جی ہاں 415 ملین!
یعنی دنیا میں موجود ہر چھ میں سے ایک بچہ ایسی جگہ رہنے پہ مجبور ہے جہاں ہر طرف باردود ہی بارود ہے.؛ اور یہی نہیں بلکہ روز بروز اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے. انتقام کی آگ تو الگ ہے لیکن یہاں جوان ہونے والے بچوں میں سے اکثر کن کن جرائم میں ملوث ہوتے ہوں گے اس کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا.
اغواء، جنسی زیادتی، قتل اسمگلنگ، جسم فروشی، نشے کا کاروبار یہ سب جرائم ان سے جڑے ہیں جنہیں ہم بچے کہتے ہیں. اور یہ ان مہذب اقوام کے منہ پہ سیاہ کالک ہے جو کسی بھی طرح صاف نہیں کی جاسکتی. مشرق وسطیٰ کہ جہاں سب سے زیادہ بچے جنگوں کا شکار ہیں کس نے مسلط کی ہیں؟ افغانستان، عراق، شام کے لاکھوں بچوں کا قاتل کون ہے؟ انڈیا کشمیر میں اور اسرائیل فلسطین میں جو گھناؤنے کھیل کھیل رہے ہیں ان کی پشت پناہی کرنے والے سے بھی اہل دانش ناواقف نہیں ہیں.
چاہے امن ہو جنگ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں اگر آج ہم نے انہیں محفوظ اور بہتر مستقبل نہ دیا تو کل یہی بچے ہمارے مستقبل کو برباد کرنے کا سبب بن سکتے ہیں، ضروت اس بات کی ہے والدین اور حکومتیں اپنا اپنا کردار ادا کریں.
قلمکار: عاشق علی بخاری
ای میل: abuhurerrabukhari@gmail.com
موبائل نمبر: 03013582389