سیف سٹی کیمرے، شہری جرائم پر قابو، دیہاتی تھانوں کا امتحان
تحریر: محمد سعید گندی
ڈیرہ غازی خان سرکل میں گزشتہ کچھ ماہ سے چوروں اور ڈاکوؤں نے عوام کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کوئی شہری خواہ وہ مارکیٹ میں ہو، شہر، گاؤں یا روڈ پر ہو حتیٰ کہ اپنے گھروں میں بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ ڈاکوؤں نے روزانہ کی بنیاد پر چوریوں اور ڈکیتیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ نہ جانے یہ سلسلہ کب اور کہاں جا کر رکے گا۔ خیر، یہ تو ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے، کبھی کم اور کبھی زیادہ۔ اسے مکمل طور پر قابو کرنا مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔
ہر پولیس افسر کا اپنا پولیسنگ کا انداز ہوتا ہے۔ ہمارے بہت سے صحافی دوست اسے "دبنگ” لکھتے ہیں۔ خیر، یہ ممکن ہے کہ کوئی ایسی کارروائیاں ہوں یا محض محبت بھرے الفاظ ہوں۔ میں ایک صحافی ہوں اور ساتھ ہی مزدور بھی۔ بہت کم کسی دفتر جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ الحمدللہ، جب کوئی آپ کو پہچان نہیں پاتا تو وہ آپ کے سامنے سچ بول دیتا ہے، ورنہ اگر آپ صحافی کے طور پر تعارف کروائیں گے تو وہ چائے پلائیں گے اور چلتا کریں گے۔
کچھ دن قبل ایک اعلیٰ پولیس افسر سے اچانک ملاقات ہوئی۔ کچھ صحافی دوست وہاں پہلے سے موجود تھے۔ سوال اٹھا کہ پچھلے چند ماہ یا ایک سال میں (وقت کی تعیین ضروری نہیں) کیا ڈیرہ غازی خان میں جرائم کم ہوئے ہیں؟ ان کا جواب بالکل درست اور بغیر کسی لگی لپٹی کے تھا۔ انہوں نے کہا کہ جرائم میں اضافہ ہوا ہے، بلکہ میں کہتا ہوں کہ بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
اس کی وجہ جاننے کی معقول کوشش بھی کی گئی۔ ان کے مطابق، جب تک تھانوں میں سیاسی اثر و رسوخ بند نہیں ہوگا، جرائم میں کمی نہیں آئے گی۔ دوسرا اہم نکتہ یہ کہ پولیس افسران اب میرٹ پر تفتیش سے بھی گھبراتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پولیس خود جرائم پیشہ افراد سے کنارہ کشی اختیار کرتی ہے۔ اس کے بہت سے محرکات ہیں، جو میرے خیال میں ہم سب جانتے ہیں۔
فیک ریکوریاں بہت زیادہ ہوئی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ جب چوریاں اور ڈکیتیاں ہوں گی تو صاف ظاہر ہے کہ عوام کو بھی کچھ ریلیف چاہیے۔ پولیس کہیں سے بھی لا کر عوام کو کچھ نہ کچھ دکھاتی ہے، اس لیے اب یہی آپشن رہ جاتا ہے، یعنی فیک ریکوریاں۔ کیونکہ جب پولیس اصلی جرائم پیشہ افراد کو پکڑتی ہے تو مدعی عدالت میں جا کر ان کے حق میں بیان دے دیتا ہے کہ یہ ہمارا چور یا ڈاکو نہیں۔ ایسی صورت میں پولیس کیا کرے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جیسے پولیس کے مسائل ہیں، وہ پیچھے ہٹ جاتی ہے اور مدعی بھی اپنا بچاؤ کر کے غائب ہو جاتا ہے۔
بڑے بڑے گینگز کا خاتمہ ضروری ہے اور یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔ سب سے پہلے عوام اور پولیس کے درمیان خلیج کو کم کرنا ہوگا۔ عوام کا پولیس پر اور پولیس کا عوام پر اعتماد ہونا لازمی ہے۔ اب ڈیرہ غازی خان میں سیف سٹی کیمرے نصب کر دیے گئے ہیں۔ ان کیمروں کے ذریعے ہم اصلی مجرم تک پہنچ سکتے ہیں۔ ان کی بدولت جو بھی چور یا ڈاکو گینگ پکڑے جائیں گے، ان کے سفارشی یا تو آئیں گے ہی نہیں، اور اگر آئیں گے تو بہت کم۔ کیونکہ پولیس ان شواہد کی بنا پر کسی کے دباؤ میں نہیں آئے گی۔ اندازاً 70 فیصد جرائم ان سیف سٹی کیمروں سے کم ہو جائیں گے، باقی پولیس خود بھی قابو کر لے گی۔
ایک سوال یہ ہے کہ کوٹ مبارک، شاہ صدر دین، کالا، دراہمہ یا دیگر دور دراز کے تھانوں کے علاقوں میں سیف سٹی کیمرے نصب نہیں ہیں۔ ان تھانوں کے علاقوں میں جرائم تو کم نہیں ہوں گے۔ بہرحال، پولیس اپنا کام کر رہی ہے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ جرائم پیشہ افراد کی نشاندہی کریں۔