صحافیوں کے حقوق کے تحفظ اور الیکٹرانک میڈیا کیلئے قانون سازی کی درخواست پر سماعت ہوئی
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواستوں پر سماعت کی ،اسلام آباد ہائیکورٹ نے مجوزہ قانون سازی کا ڈرافٹ تیار کرنے کیلئے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دیدی ، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب پانچ رکنی کمیٹی میں شامل ہیں،سیکرٹری اطلاعات و قانون، سینئر اینکر پرسن حامد میر بھی کمیٹی میں شامل ہیں، عدالت نے کمیٹی کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کر کے 17 مارچ تک ڈرافٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کچھ نہیں کرنا تو میں وزیراطلاعات اور وزیرقانون کو طلب کر لیتا ہوں،
اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن وکیل عمر اعجاز گیلانی کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے،عدالتی معاونین سینئر صحافی حامد میر اور پی بی اے کے وکیل فیصل صدیقی بھی پیش ہوئے ،وکیل پی ایف یو جے نے کہا کہ جن کے خلاف ہماری پٹیشن ہے حکومت انہی کے ساتھ مشاورت کر رہی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیمرا قانون میں ترمیم کا ڈرافٹ تیار ہے کاپی بھی فراہم کی گئی ہیں،،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے ساتھ بیوروکریسی کی طرح نہ کھیلیں،
حامد میر نے عدالت میں کہا کہ ایک ڈرافٹ تیار کر کے پچھلی اور موجودہ حکومت کو بھی دے چکے ہیں، شمس السلام ناز صاحب نے یہ ترامیم لکھی تھیں وہ اب دنیا میں بھی نہیں ہیں، ہم نے تجویز دی کہ آئی ٹی این ای کے چیئرمین کو مدت کی آئینی گارنٹی ملنی چاہیے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معذرت کے ساتھ ہماری ترجیحات ہی کچھ اور ہیں، یہ چیزیں پارلیمنٹ کے دیکھنے کی ہیں، یہاں رٹ آنی ہی نہیں چاہیے،حامد میر نے کہا کہ اللہ کرے ہماری ڈائریکشن سیدھی ہو جائے، اب تو آپکی عدالت میں بھی صحافیوں پر تشدد ہو رہا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے ایسا واقعہ رونما ہوا ہے، ہم اُسے دیکھ رہے ہیں،ڈی آئی جی کو صحافیوں پر تشدد کے واقعے کی انکوائری کا کہا ہے، ہائیکورٹ میں تشدد پر موثر اقدام ہو گا،
وکیل پی بی اے فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت حکومت کو کسی مخصوص قانون سازی کے لیے حکم نہیں دے سکتی، یہ عدالت حکومت کو قانون سازی کیلئے صرف رائے دے سکتی ہیں، عدالت نے کہا کہ یہ عدالت شہریوں کی بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے موجود ہے،آئی ٹی این ای کے پاس بھی اُس طرح کوئی جوڈیشل اختیار نہیں،آئی ٹی این ای کے قانون میں بھی بہتری کی ضرورت ہے، کیا الیکٹرانک میڈیا میں صحافیوں کی تنخواہوں کا بھی کوئی مسئلہ ہے؟ حامد میر نے کہا کہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے اور پہاڑ کی طرح کھڑا ہے کسی کو نظر نہیں آ رہا، ایک چینل تو ایک سال سے تنخواہ نہیں دے رہا تھا، میں نے اپنے چینل میں بھی یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی تو کچھ عرصہ چھوڑنا بھی پڑا،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چھ ماہ اگر کسی کو تنخواہ نہیں ملے گی تو پھر وہ کیا کریگا؟ آج کل کے حالات میں تو کوئی شخص چھ ماہ بغیر تنخواہ رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا،یہ تو ماڈرن سلیوری ہے، جیسے بھٹوں پر بغیر اجرت کام کرایا جاتا تھا، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ ایک شخص کو ملازمت کیلئے رکھیں اور اسے تنخواہ ہی نہ دیں، وکیل پی بی اے نے کہا کہ عدالت حکومت کو فریقین سے مشاورت کیلئے ایک مخصوص وقت دے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ سیکرٹری اطلاعات کو ڈرافٹ تیار کرنے دیا جائے،
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ سیکرٹری اطلاعات یہ کرنے کو تیار ہیں، حامد میر نے کہا کہ سیکرٹری اطلاعات کے بارے میں جو عدالت کی آبزرویشن ہے وہی وزیراطلاعات کی بھی ہے،یہ رائے ہونے کے باوجود بھی وہ ان کے ساتھ کام کر رہی ہیں، پچھلی حکومت میں بھی تھیں،عدالت نے کہا کہ اگر الیکشن ہو گئے اور یہ حکومت چلی گئی تو یہ معاملہ پھر لٹک جائے گا، حامد میر نے کہا کہ میں خوش ہوا ہوں کہ آپکو یقین ہے کہ الیکشن ہو جائیں گے، چیف جسٹس عامر فاروق نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ امید پر دنیا قائم ہے، حامد میر نے کہا کہ ہم تو آئین کی بالادستی کیلئے لڑیں گے اور جس سے لڑنا ہے اسکی نیت کا ہمیں پتہ ہے، عدالت نے کیس کی سماعت 17 مارچ تک ملتوی کر دی