کراچی میں اس وقت نا جائز تجاوزات کے خلاف آپریشن بہت تیزی سے جاری ہے جس میں برساتی نالوں کے اطراف قبضہ کرکے یا کے ایم سی اور کے ڈی اے کی جانب سے جاری کردہ اصل یا جعلی کاغذات کے حصول کے بعد بنائے گئے سائبان کو گرایا جائے گا اور گرایا جا بھی رہا ہے دوسری جانب کراچی سرکلر ریلوے کی زمین پر بنائی گئی تعمیرات پر بھی ہر دن بلڈوزر پہنچ جاتے ہیں یہ سب کچھ ایک دم سے نہیں ہوگیا یہ سالوں کی عقل مندی اور ذہانت کا وہ پھل ہے جو کراچی کے عوام اب جا کر چکھ رہے ہیں کیونکہ کراچی میں ادارے تو بہر حال ہر وقت موجود ہی تھے ایسا تو کبھی بھی نہیں ہوا ہوگا کے کراچی کی تعمیراتی اور آبادکاری کرنے والے ادارے چھٹیوں پر گئے ہوئے ہو اور عوام نے ان کی ادوار میں ناجائز تعمیرات کرلی ہو ایسا بھی نہیں ہوسکتا کے کراچی شہر میں آپ ایک دیوار جائز زمین پر بنا رہے ہو اور آپ کو مٹھائی کا ہرجانہ نا بھرنا پڑا ہو کراچی والے یہ سب جانتے ہیں لیکن ایسا کیا ہوا جو ہزاروں گھروں کی تعمیرات ہوتی رہی اور کراچی سے ہر ماہ کروڑوں روپے تنخواہیں وصول کرنے والے ادارے سوتے رہے ہوا کچھ یوں کے ہر منسلک ادارے نے اپنے حصے کا مال غنیمت وصول کیا اور آنکھوں کو بند کئے رکھا کیونکہ ان کی سمجھ کے مطابق بنی گالا کو ریگولیشن کے لئے چھوٹ مل سکتی ہے تو یہ تو بچاری غریبوں کی بستیاں ہیں یہاں کس نے آجانا ہے لیکن ہوا کچھ الٹ بلکہ وہ ہوا جس کا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کراچی میں برسوں کی محکمہ جاتی نااہلی کا سارا بوجھ ان غریبوں پر ڈال دیا گیا جو پہلے ہی اپنے حصے سے زیادہ تاوان ادا کرچکے تھے اور کچھ تو ایسے بھی تھے جن کی قسمت میں ساری زندگی کی کمائی جمع کرنے کے بعد لینے والے اپنے آشیانے میں رہنے کا موقع چند دنوں پہلے ہی میسر آیا تھا اطلاعات کے مطابق لوگ خد کشیاں کر رہے ہیں پاگل دیوانے کی طرح اس ملک خداداد پاکستان کی ریاست جو کے ایک ماں کی طرح اپنے بچوں کو اپنی باہوں میں سمولے گی سوچ کر ادھر ادھر بھاگتے گرتے پڑتے کسی معجزے کی امید کا انتظار کررہے ہیں بچیوں کے رشتے ختم ہوگئے لوگ ایک ہی لمحے میں روڈ پر آگئے مگر نیا پاکستان ہے کے ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہا ریاست مدینہ کے دعویدار ان غریبوں کے آشیانوں کو ایک آرڈیننس کے زریعے بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر ہر کام کی کوئی قیمت ہوتی ہے یہ غریب چیئرمین سینیٹ کے انتخابات تھوڑی ہیں جو تعداد پوری نا ہونے کے باوجود جیتا جاسکتا ہے یہ یوسف رضا گیلانی بھی نہیں جو سینیٹ میں معجزہ دکھا کر سینیٹر بن جائے یہ غریب جہانگیر ترین بھی نہیں جو اپنا علیحدہ گروپ بناکر اپنے حق میں حکومتوں کو جھکا سکیں یہ تو وہ غریب پاکستانی ہیں جو دودھ سے لیکر مرغی اور چینی سے لیکر پیٹرول تک ہر چیز میں اضافی رقم دیکر بھی اپنے حصے کا آئینی حق جو انہیں پاکستان کے آئین کے مطابق حاصل ہے وہ ہی حاصل کر لیں
چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل ہے کہ آبادکاری کا فزیکل ریویو کروا کر جس سن سے آبادکاری شروع ہوئی آج تک پوسٹ ہونے والے تمام ہی افسران سے عوام کے نقصانات کا حرجانہ وصول کیا جائے ہرجانہ ادا نا کرنے والے کی جائیدادوں کی نیلامی کرکے رقم وصول کی جائے این او سی جاری کرنے والے محکموں سے حاصل کردہ ریونیو غریبوں میں واپس تقسیم کیا جائے اگر انصاف کا عمل کراچی سے شروع ہو ہی گیا ہے تو اس کو پاکستان کے طول وعرض میں پہنچایا جائے آل آصف اسکوائر کے قبضے ہوئے الاٹیز کو ان کے آشیانے واپس کرائے جائے قابضین سے دہائیوں رہنے کا رینٹ الاٹیز کو دلوایا جائے .اور میں تو کہتا ہوں کے بس انصاف کیا جائے جو دنیا کے سامنے چیخ چیخ کر اپنے ہونے کا اعلان کرے