سیلاب کے زخم اور سیاست کے بیگ
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں جہاں لاکھوں افراد اپنے گھروں، کھیتوں اور روزگار سے محروم ہو چکے ہیں،وہاں حکومتی ریلیف کی تقسیم متاثرین کے لیے امید کی ایک کرن ہونی چاہیے تھی۔ قدرتی آفات کے بعد عوام کی نظریں ہمیشہ ریاست پر لگی ہوتی ہیں کہ وہ کس طرح ان کے دکھوں کا مداوا کرتی ہے۔ مگر پنجاب کی چیف منسٹر مریم نواز شریف کی تصویر والے بیگ اور باکسز کی تقسیم نے عوامی سطح پر امید کے بجائے غصے اور مایوسی کو جنم دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بیگ واقعی سیلاب متاثرین کے آنسو پونچھ رہے ہیں یا ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں؟ کیا ان بیگز کی تیاری پر خرچ ہونے والا پیسہ متاثرین کی زندگی میں کوئی حقیقی آسانی لا رہا ہے یا یہ سب صرف سیاسی تشہیر اور ذاتی برانڈنگ کا کھیل ہے؟ اور سب سے اہم سوال، کیا عوامی ٹیکس سے حاصل شدہ پیسہ ایک منتخب نمائندے کی ذاتی تشہیر پر ضائع کیا جا سکتا ہے؟

سیلاب کی تباہ کاریوں کی حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پنجاب کے کئی اضلاع میں موسلا دھار بارشوں اور دریاؤں کے طغیانی نے ایسی بربادی مچائی کہ لاکھوں خاندان بے گھر ہو گئے، کسانوں کی محنت سے اگائی گئی فصلیں برباد ہو گئیں اور مویشی تک ڈوب کر ہلاک ہوئے۔ دیہات سے شہروں تک ہر جگہ پانی ہی پانی نظر آ رہا ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جہاں ہر لمحہ زندگی اور موت کے بیچ کا فرق بن جاتا ہے۔ ایسے میں حکومتی ریلیف پیکیج عوام کے لیے سہارا بن سکتا تھا۔ مگر جب یہ ریلیف متاثرین تک مریم نواز کی بڑی بڑی تصاویر والے بیگ میں پہنچا تو عوامی ردعمل بالکل مختلف نکلا۔

سوشل میڈیا پر عام شہریوں نے ان بیگسز کو مذاق اور دکھ کے امتزاج سے تعبیر کیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ان بیگز میں موجود اشیاء جیسے دو پیکٹ بسکٹ، ایک جوس کا چھوٹا ڈبہ جن کی قیمت بمشکل 50 روپے بنتی ہے، اس کے مقابلے میں بیگ کی تیاری اور پرنٹنگ پر سو روپے سے زیادہ خرچ آ رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار عوام کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آخر ترجیحات کہاں ہیں؟ کیا مقصد سیلاب زدگان کی فوری بحالی ہے یا اپنی شخصیت کو عوام کے ذہنوں پر مسلط کرنا؟ ایک رپورٹ کے مطابق یہ ریلیف جیسا اقدام دراصل ایک ’’پی آر ڈیزاسٹر‘‘ ثابت ہوا ہے کیونکہ امداد کی اصل لاگت کے مقابلے میں بیگ اور اس کی برانڈنگ کی لاگت کہیں زیادہ ہے۔

یہی نہیں ان بیگز کی تقسیم نے سیاسی پروپیگنڈے کا رنگ بھی اختیار کر لیا۔متاثرین کی جھونپڑیوں میں، سکولوں میں بنائے گئے ریلیف کیمپس میں اور حتیٰ کہ مساجد تک میں یہ بیگ بانٹے گئے، جن پر مریم نواز کی تصاویر نمایاں تھیں۔ یہاں تک کہ مساجد کے سائن بورڈز کو بھی مریم نواز شریف کی تصاویر سے مزین کر دیا گیا، جس نے عوامی ردعمل کو مزید بھڑکا دیا۔ یہ منظر دیکھ کر لوگوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اللہ کے گھر کے باہر بھی سیاست کی تشہیر کا یہ طریقہ درست ہے؟ ناقدین نے اسے محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں بلکہ ایک طرح کی ’’نارسیسٹک‘‘ سوچ قرار دیا جس میں عوام کے دکھ درد کے مقابلے میں ذاتی تشہیر زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

سوشل میڈیا پر سینکڑوں ویڈیوز اور پوسٹس وائرل ہوئیں جن میں متاثرین نے خود اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بیگ یا ڈبے پر لیڈر کی تصویر لگانے سے انہیں کوئی سہولت نہیں ملتی۔ بعض صارفین نے لکھا کہ ’’ہمیں کھانے کو روٹی چاہیے، رہنے کو چھت چاہیے، دوا چاہیے، یہ تصویریں ہمارے زخم نہیں بھرتیں‘‘۔ایک صارف نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ اب پنجاب میں صرف کفن پر مریم نواز کی تصویر لگنا باقی ہے، عمومی رائے کے مطابق یہ بیگ دراصل حکومتی نااہلی اور عوامی احساسات سے بیگانگی کی علامت بن چکے ہیں۔

ایک اور پہلو بھی غور طلب ہے۔ یہ بیگ اور باکسز عوامی ٹیکس کے پیسوں سے تیار کیے گئے۔ جب متاثرین دیکھتے ہیں کہ انہی کے ٹیکس سے جمع ہونے والے وسائل کو ان پر براہ راست خرچ کرنے کے بجائے ایک فرد یا خاندان کی سیاسی تشہیر پر لگایا جا رہا ہے تو ان کے دلوں میں بداعتمادی اور غصہ مزید بڑھتا ہے۔ پنجاب میں صرف فوڈ بیگز نہیں بلکہ دودھ کے ڈبوں اور پھلوں پر بھی مریم نواز کی تصاویر دیکھی گئیں۔ یہ سب اقدامات عوام کو اس نتیجے پر پہنچا رہے ہیں کہ ریاست ان کے دکھ درد پر سنجیدگی سے نہیں بلکہ تشہیر کی نیت سے توجہ دے رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر اسے ’’سیاسی ڈرامہ‘‘ کہا گیا اور بعض صارفین نے طنزیہ لکھا کہ ’’اب شاید بارش کے پانی پر بھی مریم نواز کی تصویر چھاپ دی جائے‘‘۔

یہ رویہ کسی ایک صوبے یا ایک شخصیت تک محدود نہیں بلکہ ہماری مجموعی سیاست کی خودغرضی کی عکاسی کرتا ہے، جہاں سیاستدان خدمت سے زیادہ تشہیر کو ترجیح دیتے ہیں۔ قدرتی آفات کے وقت عوام کو سب سے زیادہ ضرورت خوراک، پینے کے صاف پانی، ادویات اور سر چھپانے کے لیے چھت کی ہوتی ہے۔ لیکن جب ان کی جگہ رنگین بیگ اور تشہیری مہم چلائی جائے تو یہ صرف مایوسی کو جنم دیتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں عوام پہلے ہی معاشی بحران اور بے روزگاری سے دوچار ہیں، وہاں اس طرح کی حکمتِ عملی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے انہیں مزید تکلیف دیتی ہے۔

اصل ضرورت یہ ہے کہ حکومت اپنے وسائل براہ راست متاثرین کی بحالی پر خرچ کرے۔ اگر بیگ اور ڈبوں کی پرنٹنگ پر لگنے والا پیسہ متاثرہ خاندانوں کو صاف پانی، ادویات یا عارضی رہائش کی فراہمی پر استعمال کیا جاتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔ اس کے برعکس موجودہ پالیسی نے حکومت کی نیت پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ عوامی سطح پر یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ حکومتی اقدامات کا مقصد خدمت نہیں بلکہ اشتہار بازی ہے۔

اس سارے تناظر میں ہم صرف اتنا عرض کریں گے کہ حکومت کو اپنی ترجیحات درست کرنا ہوں گی۔ اگر لیڈرز واقعی عوامی نمائندے ہیں تو انہیں عوام کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہیے، نہ کہ تصویر والے بیگز کے ذریعے ان کے زخموں کو کھرچا جائے اور دکھ کم کرنے کے بجائے ان کے دلوں میں مزید نفرت کے بیج بوئے جائیں۔ سیلاب زدگان کو ضرورت ہے خوراک، دواؤں، رہائش اور معاشی مدد کی، نہ کہ پبلسٹی کی۔ اگر یہ رویہ جاری رہا تو عوام کی مایوسی اور بداعتمادی ایک بڑے احتجاجی طوفان میں بدل سکتی ہے، جس کے اثرات صرف ایک سیاسی خاندان پر نہیں بلکہ پورے نظام پر پڑیں گے۔

Shares: