سماجی ضابطہ اخلاق اور فکری آزادی تحریر: محمد نعیم شہزاد

0
43

سماجی ضابطہ اخلاق اور فکری آزادی
محمد نعیم شہزاد

فرد معاشرے کی اکائی ہے اور معاشرہ ایک فرد کی ضرورت ہے۔ گویا دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ خلائق میں انسان کو شرف فضیلت اس کے علم کی بدولت دیا گیا اور علم کا منبع خدائے بزرگ و برتر کی ذات اور وحی الٰہی ہے۔ علم اور آداب و اخلاق کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل اور ادھورے ہیں۔ وہ علم جو انسان کے دل و دماغ میں تکبر اور رعونت بھر دے ایسے علم سے جہالت بھلی۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بتاتا چلوں کہ معاشرے میں فرد کے مختلف کردار ہیں جن کے اعتبار سے اسے عزت و تکریم اور فضیلت دی جاتی ہے۔ اس قرابت اور تفاوت کا لحاظ عین حکم ربی بھی ہے اور ہمارے معاشرے کا حسن بھی۔

"کل بنی آدم خطاؤن” جیسے فرمان نبوی علیہ الصلوۃ و السلام سے ہر بشر سے خطا کا امکان واضح ہے مگر اگر ہمارے آباؤ اجداد یا بڑوں میں سے کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو ہمارے انداز تکلم کچھ اور ہوتا ہے اور ادب و احترام کو لازم ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ شاہ کی غلطی پر وزیر اور مشیر متنبہ کر سکتے ہیں مگر شان کا لحاظ کرتے ہوئے ورنہ گردن زدنی لازم آئے گی اور یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ بات کرنے والا شاہ کا وفادار اور خیر خواہ ہے بلکہ اسے گستاخ محض مانا جائے گا اور اسے اپنے عمل کی سزا بھگتنا ہو گی۔

دین اسلام میں ایک عام قاعدہ بھی سکھا دیا گیا ہے کہ جو اس جہان فانی سے چلا جائے اس کے متعلق کسی برائی کا تذکرہ نہ کیا جائے مگر جو بات ہمارے سامنے موجود ہے یہ تو ان اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین سے متعلق ہے جن کے بارے خود رب لم یزل نے خود رضا مندی کی سند عطا کی۔ جن مالک اپنے بندے سے راضی ہے تو کسی کو اختیار نہیں کہ وہ نقض و نقص بیان کرے اور اپنے تئیں دانش ور و عقل کل قرار دے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان اقدس پر ہمارا ایمان ہے کہ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی رسول بھی بڑے سے بڑے ولی کامل، مجدد اور فقہیہ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اور کوئی بھی ان کے کف پا کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا کہ "میرے صحابہ کو برا مت کہو”۔

ان ساری تمہیدات کا مقصد آفتاب اقبال صاحب کا اپنے شو میں غزوہ احد میں مال غنیمت کے حوالے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا غیر مناسب انداز میں ذکر ہے جو ہرگز ان کے شایان شان نہیں ہے۔ ہم حسن ظن سے کام لیتے ہوئے خیال کرتے ہیں کہ یہ موصوف کی بشری لغزش ہے اور ان کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی خطاؤں سے صرف نظر برتے اور خیال کرتے ہیں کہ وہ یقیناً اس سے رجوع کریں گے کہ اہل علم و دانش کی شان ہی یہ ہے کہ وہ غلطی پر اتراتے نہیں بلکہ توبہ اور اصلاح کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اور تکب و رعونت میں آ کر ابطال حق نہیں کرتے۔

Leave a reply