آپ کرونا کے بارے میں تو جانتے ہیں۔ یہ وہ وبا تھی جو انسانوں میں ایک وائرس کے ذریعے پھیلی مگر کیا آپ چینی کے بارے میں جانتے ہیں جو وہ وبا ہے جو صنعتی ترقی سے پھیلی۔

چینی کی کہانی ہے تو پرانی یعنی تقریباً 25 سو سال پہلے، کی، جب بھارت میں اسے پہلی بار بنایا گیا مگر اسکا دنیا میں اس پیمانے پر استعمال جو آج ہو رہا ہے، تاریخ میں نہیں ملتا۔ چینی اور تمباکو دونوں کی کہانی قدرِ مشترک ہے۔

ان دونوں کی فصل یعنی گنا اور تمباکو کی کاشت بڑے پیمانے پر لاطینی اور وسطی امریکہ میں ماضی میں افریقہ سے لائے گئے لاکھوں غلاموں سے کرائی جاتی۔ ان دونوں اشیا کو شروع میں صحت کے لیے فائدہ مند سمجھا جاتا۔ دُنیا نے دونوں کے استعمال میں بے پناہ اضافہ سترویں صدی میں وسط میں دیکھا جب اِنہیں صنعتی بنیادوں ہر تیار کیا جانے لگا۔

چینی ہے تو میٹھی مگر اسکی تاریخ بے حد کڑوی ہے۔

برازیل اور کیریبین جزائر پر گنے کی فصل اُگانے کے لیے بڑی تعداد میں مزدوروں کی ضرورت رہتی۔ اسے پورا کرنے کے لئے 16 ویں صدی سے 19ویں صدی تک افریقہ سے امریکہ کے دونوں براعظموں تک سوا ایک کروڑ انسانوں کو، غلام بنا کر کشتیوں پر لایا گیا۔ یہ سمندری سفر اتنا کٹھن اور طویل ہوتا کہ اس میں 25 فیصد لوگ منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے۔ مانا جاتا ہے کہ اس پورے دور میں 10 سے 20 لاکھ لوگوں کی لاشیں سمندر میں پھینکی گئی ہونگی۔ اُس زمانے میں غلامی عام تھی۔ یورپ، افریقہ، مشرقِ وسطیٰ یا ایشیا ان تمام جگہوں پر غلامی کوئی جرم نہیں تھا۔ جدید دنیا سے غلامی کی یہ سفاکانہ روایت باقاعدہ طور پر امریکہ کے صدر ابراہم لنکن نے 1863 میں ختم کروائی جب اُنہوں نے اعلان کیا کہ امریکہ میں تمام غلاموں کو فوراً آزاد کر دیا جائے۔

اگر چند صدیاں پیچھے جائیں تو چینی کھانوں میں شاز و نادر ہی استعمال ہوتی مگر آج یہ صورتحال ہے کہ دنیا کی کل استعمال ہونے والی غذائی کیلیوریز میں چینی سے حاصل کردہ کیلوریز کا تناسب 20 فیصد ہیں۔ قیمت کے اعتبار سے گنے کی فصل چاول اور گندم کے بعد دنیا کی تیسری بڑی فصل پے۔

چینی کی بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار کے باعث سترویں صدی سے اسکا استعمال وبا کی طرح پھیلا۔ اور آج میں سالانہ 180 ملین ٹن سے بھی زائد چینی پیدا ہوتی ہے جس میں پاکستان کا حصہ تقریباً 7 ملین ٹن ہے۔

امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق چینی سے منسلک بیماریوں سے بچاؤ اور صحت مند زندگی کے لیے اس کا استعمال کم سے کم ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے اّنکی سفارش کردہ حد کے مطابق: ایک دن میں مرد حضرات کو زیادہ سے زیادہ 36 گرام (9 چینی کے چمچ) جبکہ خواتین کو 24 گرام (6 چینی کے چمچ) چینی استعمال کرنی چاہئیے۔ مگر اس سے جتنی کم استعمال کی جائے، اُتنی ہی صحت کے لیے بہتر ہے۔ 2019 کے اعداو شمار کے مطابق پاکستان میں فی کس سالانہ 21.5 کلو چینی "رگڑتا” ہے۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ ہر روز ایک پاکستانی تقریباً 58 گرام (15 چینی کے چنچ) استعمال کرتا ہے۔ گویا یہ صحتمندانہ حد سے تقریباً دو گنا زیادہ ہے!!

انٹرنیشنل ڈائبیٹیز فیڈریشن کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک شخص ذیابیطس کا شکار ہے جسکی بڑی وجوہات میں سے ایک چینی کا زائد استعمال بھی بتایا جاتا ہے۔ خطرناک صورتحال یہ ہے کہ ملک میں آبادی اور تیار کھانوں کی مصنوعات میں اضافےکے باعث چینی کی کھپت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو 2023 میں یہ کھپت 2021 -2022 کے مقابلے میں تقریباً 3 فیصد بڑھ جائے گی۔

پاکستان اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے اٹرات سے گزر رہا ہے اور آنے والے سالوں میں زیرِ کاشت رقبے میں کمی اور ہانی کی قلت کے باعث یہاں خوراک کی غیر یقینی صورتحال متوقع ہے۔ اس وقت کاشت ہونے والے گنے کی فصل کا ایک بڑا حصہ چینی کی پیداوار میں استعمال ہو رہا ہے۔ ملک کے کل زیر کاشت رقبے میں 1 ملین ہیکٹرز گنے کی کاشت کے لیے وقف ہے۔جبکہ گنے کی فصل آبپاشی کے لیے استعمال ہونے والے پانی کا تقریباً 10 فیصد حصہ استعمال کرتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دیگر فصلیں خاص کر کپاس کی پیداوار کم ہو رہی ہے جسکے باعث کسان زیادہ ہانی استعمال کرنے والی گنے کی فصل لگانے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں فی ایکڑ گنے کی پیداوار بھارت سے بھی کم ہے۔ یہاں ہر ایک ہیکٹر پر اوسط 46 ٹن گنا اُگتا ہے جو دنیا کی اوسط یعنی 60 ٹن فی ہیکٹر سے کافی کم ہے۔ ( ایک ہیکٹر میں 2.41 ایکڑ ہوتے ہیں)۔ گویا ہم کر طرف سے مار کھا رہے ہیں۔

شوگر مافیہ، زراعت میں کسان دوست پالیسیوں کے فقدان، مہنگی کیڑے مار ادوایات، کھاد کی خراب کوالٹی، ناکافی تربیت اور دیگر ایسے کئی مسائل ہیں جو اس فصل کی پیداوار اور اس سے جڑے معاشی اور معاشرتی نقصانات کو جنم دے رہے ہیں۔ اسکے علاوہ عوام میں چینی کی کھپت کے غیر صحتمندانہ اور غیر ذمہ دارنہ استعمال سے صورتحال آنے والے دنوں میں مزید ابتر دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں اربابِ اختیار کو سوچنا ہو گا کہ عوام کی صحت، ماحولیاتی تبدیلیوں اور آئندہ آنے والے غذائی بحران سے نمٹنے کے لیے کیا حکمتِ عملی اختیار کی جائے۔

باہر کے ممالک میں چینی کے غیر ذمہ دارنہ استعمال کی حوصلہ شکنی کے لئے شوگر ٹیکس کی تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے 2016 میں برطانیہ میں ایک بل کے ذریعے شوگر ڈرنکس پر ٹیکس عائد کیا گیا۔ اب تک 50 سے زائد ممالک شوگر ٹیکس کسی نہ کسی صورت عائد کر چکے ہیں۔ جس سے یہ دیکھا گیا ہے کہ عوام میں چینی کے استعمال میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں حالیہ بجٹ میں حکومت نے۔ چینی پر 10 فیصد ٹیکس "سپر ٹیکس” کے نام سے عائد کیا ہے۔ کیا اس سے ملک میں چینی کی کھپت میں کمی آئے گی؟ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ آپ فی الحال کم چینی والی چائے پیجئے۔

Shares: