صوبائی انسپکشن کمیٹی نے دریائے سوات میں 26 جون کو پیش آنے والے سیلابی ریلے کے باعث 13 افراد کے ڈوبنے کے واقعے کی جامع انکوائری مکمل کر کے 63 صفحات پر مشتمل رپورٹ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کو پیش کر دی ہے۔
رپورٹ میں ضلعی انتظامیہ، محکمہ آبپاشی، بلدیات اور ریسکیو 1122 کو اس حادثے کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے رپورٹ میں شامل کوتاہیوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے متعلقہ افراد کے خلاف سخت تادیبی کارروائیاں کرنے کی منظوری بھی دے دی ہے۔رپورٹ کے مطابق مختلف محکموں بشمول محکمہ پولیس، ریونیو، ایریگیشن، ریسکیو، اور ٹورازم پولیس کے درمیان فیلڈ میں کوآرڈینیشن کا شدید فقدان رہا، جس کی وجہ سے امدادی کارروائیاں بروقت اور مؤثر طریقے سے انجام نہ دی جا سکیں۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی ہے کہ تمام متعلقہ محکمے 60 دن کے اندر اپنی تمام قانونی ذمہ داریاں پوری کریں اور کوتاہی برتنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔مزید برآں، رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ متعلقہ ادارے 30 دن کے اندر اپنی کوتاہیوں کو دور کریں تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے۔
وزیراعلیٰ نے چیف سیکرٹری کی قیادت میں ایک اورسائٹ کمیٹی بنانے کی منظوری دی ہے جو ماہانہ بنیادوں پر وزیراعلیٰ کو رپورٹ پیش کرے گی۔ یہ کمیٹی ریور سیفٹی ماڈیولز کی تشکیل، اگلے مون سون کے دوران ایمرجنسی پلان بنانے، اور ریسکیو 1122 کی استعداد بڑھانے کے لیے منصوبہ بندی کرے گی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دریاؤں کے اطراف سیاحتی مقامات میں حفاظتی خطرات کی کوئی درجہ بندی نہیں کی گئی، جبکہ آبی گزرگاہوں پر غیر قانونی تعمیرات روکنے کے لیے اقدامات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ صوبہ بھر میں تجاوزات کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کے دوران 127 غیر قانونی عمارتوں کو سیل کیا گیا اور 682 کنال زمین پر تعمیرات کو مسمار کیا گیا۔رپورٹ میں آئندہ ایسے سیلابی حادثات سے نمٹنے کے لیے 36 نئے ریسکیو اسٹیشنز کے قیام، جدید ریسکیو آلات کی خریداری اور 70 کمپیکٹ ریسکیو اسٹیشنز قائم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم کے قیام کی منظوری بھی دی گئی ہے تاکہ بروقت خطرات کی نشاندہی اور مؤثر ردعمل ممکن ہو سکے۔
یاد رہے کہ 26 جون کو دریائے سوات میں آنے والے سیلابی ریلے کے باعث 17 افراد بہہ گئے تھے، جن میں سے 4 کو بچالیا گیا جبکہ 12 کی لاشیں مل چکی ہیں اور ایک لاش اب تک نہیں ملی۔