دریائے سوات میں پکنک منانے آئے سیاحوں کی ہولناک ہلاکتوں نے پورے ملک کو افسردہ کر دیا ہے۔ حادثے میں جاں بحق ہونے والے 11 افراد میں سے 8 کی نماز جنازہ ڈسکہ میں ادا کر دی گئی جبکہ 2 افراد کی تلاش اب بھی جاری ہے۔ یہ اندوہناک واقعہ کئی سوالات چھوڑ گیا ہے جن کے جوابات لواحقین، عوام، اور سوسائٹی مانگ رہی ہے۔
جاں بحق افراد کے اہل خانہ اور عینی شاہدین نے الزام عائد کیا ہے کہ ریسکیو 1122 کی ٹیمیں ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے پہنچیں، اور جب پہنچیں تو ان کے پاس نہ کشتیاں تھیں، نہ جال۔ متاثرین بتاتے ہیں کہ ان کے عزیز دریا کے بیچ ایک ٹِیلے پر پھنسے رہے، چیختے رہے، مدد کے لیے پکارا، مگر موجیں سب کچھ بہا لے گئیں۔ضلعی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ سیاحوں کو خطرے سے خبردار کیا گیا تھا اور انہیں روکا بھی گیا، لیکن وہ نہ مانے۔ ذرائع کے مطابق متاثرہ فیملی صبح 8:30 پر ہوٹل کے کیفے میں ناشتے کے لیے پہنچی مگر ہوٹل بند تھا، جس کے بعد وہ پچھلے راستے سے دریا کے اندر چلے گئے۔ سیاحوں نے دریا کے اندر جا کر سیلفیاں لینا شروع کر دیں، مقامی لوگوں نے بار بار خبردار کیا کہ پانی کا ریلا آ سکتا ہے، مگر وہ باز نہ آئے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق 9:50 پر ریسکیو 1122 کو کال کی گئی، مگر حادثے کی نوعیت کا اندازہ نہ ہونے کے باعث ٹیمیں بغیر کشتی و جال کے پہنچیں۔ بعد ازاں 10 منٹ میں یہ سامان منگوایا گیا اور کارروائی شروع کی گئی۔ کارروائی کے دوران تین سیاحوں اور ایک مقامی شخص کو بچایا گیا۔
واقعے کی سنگینی کے پیش نظر خیبر پختونخوا حکومت نے ڈپٹی کمشنر سوات سمیت متعدد افسران کو معطل کر دیا ہے اور ایک انکوائری کمیٹی قائم کر دی گئی ہے تاکہ ذمہ داروں کا تعین ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ سوات بار ایسوسی ایشن نے احتجاجاً عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اور سانحے میں غفلت برتنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
کمشنر مالاکنڈ عابد وزیر نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں انکشاف کیا کہ سیاحتی پوائنٹس پر تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کیا جا رہا ہے۔ جس نجی ہوٹل سے سیاح دریا کی طرف گئے تھے، اسے سیل کر کے مالک کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ دریائے سوات کے اندر اور اطراف غیر قانونی مائننگ پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے۔سرکاری رپورٹ کے مطابق ضلع بھر میں دفعہ 144 نافذ تھی، جس پر عملدرآمد پولیس کی ذمہ داری تھی۔ مگر حیرت انگیز طور پر پولیس جائے وقوعہ پر سب سے آخر میں پہنچی۔ سوال یہ ہے کہ جب قانون لاگو تھا تو دریا کے اندر سیاح کیسے پہنچے؟ ہوٹل کا پچھلا راستہ کیوں کھلا تھا؟ پولیس اور انتظامیہ کہاں تھی؟
اہم سوالات جو اب بھی جواب طلب ہیں ،اگر دفعہ 144 نافذ تھی تو سیاحوں کو دریا میں جانے سے کس نے روکا؟ریسکیو اہلکار بغیر سامان کیوں پہنچے؟حادثے کے وقت ہوٹل کھلا کیوں نہ تھا، اور پچھلا راستہ بند کیوں نہ تھا؟انتظامیہ اور پولیس موقع پر تاخیر سے کیوں پہنچے؟اگر سیاحوں نے مقامی لوگوں کی بات نہ مانی تو کیا سرکاری ادارے مزید سختی نہیں کر سکتے تھے؟
سانحہ سوات صرف ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک نظام کی ناکامی کی علامت بن گیا ہے۔ انتظامیہ، پولیس، ریسکیو ادارے، سب کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومتی سطح پر ٹھوس اقدامات کیے جائیں تاکہ آئندہ ایسی غفلت انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب نہ بنے۔