پشاور ہائیکورٹ میں سانحہ سوات سے متعلق 384 صفحات پر مشتمل تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ جمع کرا دی گئی۔
عدالت نے دریا کنارے غیر محفوظ تعمیرات اور سیلابی خطرات کے پیش نظر دریاؤں کو محفوظ بنانے سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کی تھی رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی نے 10 افسران اور ذمے دار افراد کے بیانات قلمبند کیے اور واقعے کی تحقیقات کیلئے محکموں کے افسران کو الگ الگ تفتیش کیلئے بلایاجن میں سوات پولیس کے سربراہ، ڈی جی ریسکیو، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ، ڈی جی پی ڈی ایم اے، ڈپٹی کمشنر سوات، ٹی ایم او سوات، اور کمشنر ملاکنڈ ڈویژن شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پولیس، ریسکیو 1122، پی ڈی ایم اے، ضلعی انتظامیہ اور دیگر محکموں نے اپنی تفصیلی رپورٹس جمع کرائیں۔ ان رپورٹس میں سیلاب سے پہلے اور بعد میں کی گئی تیاریوں، حکومتی ردعمل اور معطل کیے گئے افسران کے حوالے سے تفصیلات موجود ہیں رپوٹ میں واقعے کے بعد حکومتی اقدامات، معطل افسران، سیلاب سے پہلے اوربعد میں کی گئی تیاریوں کی تفصیلات، اور سانحہ سے قبل کیے گئے اقدامات اور نظام میں موجود خامیوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافے کا امکان
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سانحہ سوات کے 3 دن بعد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے تجاوزات کے خلاف آپریشن کی ہدایت کی تاہم اس سے پہلے کسی موثر اقدام کا کوئی ثبوت نہیں ملا، رپورٹ میں بارشوں سے جاری پیشگی آگاہی پیغامات کے ثبوت بھی عدالت کو فراہم کیے گئے،رپورٹ میں محکموں کی باہمی کوآرڈینیشن کی کمی اور خطرات سے نمٹنے کے لیے مناسب حکمت عملی نہ ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مون سون بارشوں کی پیش گوئی، دفعہ 144 کے نفاذ اور خطرات سے آگاہی سے متعلق جاری کردہ اعلامیے موجود تھے، تاہم ان پر موثر عملدرآمد نہیں کیا گیا اس کے ساتھ ساتھ عوام کو بروقت پیشگی آگاہی دینے کے شواہد بھی رپورٹ میں شامل ہیں، مگر نظام کی خامیوں نے نقصان کو بڑھا دیا۔
آئندہ ماہ ای وی پنک موٹر سائیکل مفت میں خواتین کو دی جائیں گی، شرجیل میمن