سقوط ڈھاکہ۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ از قلم خلیل احمد تھند
سقوط ڈھاکہ۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ
سیاست کا المیہ نظام نہیں مفاد پرستی ہے ہمارے نزدیک سیاست کو مفاد پرستوں کے قبضے سے آزادی دلا کر وولینٹئرز سیاسی لیڈر شپ کے حوالے کرنے کا عمل اہم ترین مشن کا درجہ رکھتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ نظام اچھا ہو یا برا اسے چلانا بہرحال انسانوں نے ہی ہوتا ہے سیاست اور اختیار جن ہاتھوں میں ہو ان کا کردار اچھے یا برے نتائج پیدا کرتا ہے اچھے لیڈرز برے نظام میں بھی اچھا پرفارم کر لیتے ہیں جبکہ مفاد پرست لیڈرز اچھے نظام میں بھی اپنے مفاد کو ترجیح پر رکھنے کی وجہ سے برے نتائج دیتے ہیں لہذا ملک بچانے ، اسے مستحکم رکھنے اور عوامی حقوق یقینی بنانے کے لئے ملک کا اختیار بے لوث ، مخلص اور باصلاحیت قیادت کے ہاتھوں میں منتقل کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔
بانیان پاکستان نے مسلمانوں کی آزادی عمل کے لئے الگ وطن حاصل کرنے کے مشن کے لئے اپنا مستقبل ، اپنی جائیداد ، اپنا کیریئر ، اپنی خانگی زندگی سب کچھ نثار کردیا قائد اعظم محمد علی جناح ، محترمہ فاطمہ جناح ، نواب لیاقت علی خان ، سردار عبدالرب نشتر سمیت دیگر ہیروز قربانی کی داستانیں رقم کر کے لازوال ہوگئے ہمارےان بے لوث ہیروز کے سیاسی منظر سے ہٹتے ہی مفاد پرست اقتدار پر قابض ہو گئے جنہوں نے اپنی ہوس اقتدار کی خاطر ملک کو تختہ مشق بنا ڈالا بانیان پاکستان کے برعکس سول اور فوجی بیورو کریٹس غلام محمد ، سکندر مرزا ، جنرل ایوب خان ، جنرل یحیی’ خان نے ملک کو ڈی ٹریک کیا ، اپنے اقتدار کی خاطر قومی یکجہتی کی جگہ انتشار کو پروان چڑھا کر نفرتوں کی جانب دھکیل دیا انکے خود غرض ، مفاد پرست اور اخلاقیات سے عاری طرز عمل نے ملک کے دو بازووں میں سے ایک کو کاٹ ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔
16 دسمبر 1971 کے سانحے کے اصل محرک بھی دراصل یہی مفاد پرست کردار ہیں جنہوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے کی راہ ہموار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اس گناہ عظیم کے باوجود وہ پوتر کے پوتر ہی ہیں۔
ہوشیار اور طاقتور سول و فوجی بیورو کریٹس نے بہت صفائی سے پاکستان توڑنے کا سارا ملبہ سول سیاسی لیڈر ذولفقار علی بھٹو جیسے چھوٹے مجرم پرڈال کر خود کو اس الزام سے بری الذمہ کر لیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان محض بھٹو سے منسوب ” ادھر ہم ادھر تم” کے تحقیق طلب بیان کی وجہ سے ٹوٹ گیا ؟ کیا کبھی ایسا ہوا کہ کسی شخص کے ایک بیان کی بنیاد پر اچانک ملک دولخت ہوگئے ہوں؟ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ملکوں کے ٹوٹنے میں سالہا سال کے منفی روئیے اور عوامل کارفرما ہوتے ہیں ایک وقت ایسا آتا ہے جب پس پردہ پنپنے والا نفرتوں کا لاوا پک کر اچانک پھٹ پڑتا ہے اور پھر ملک ٹوٹ جاتے ہیں۔
پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کاجرم بھٹو کی گلے منڈھ دیا جائے یا انڈین مداخلت کو جواز بنا کر دل کی تسلی کا سامان کرلیا جائے کیا کبھی مشرقی پاکستان کے باسیوں کے دلوں میں پروان چڑھنے والی نفرتوں کے اندرونی اسباب کو بھی تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
جمہوری طریقے سے قائم ہونے والے ملک سول یا فوجی ڈکٹیٹر شپ کے جبری اقتدار کی وجہ سے یکجا اور مستحکم نہیں رہ سکتے دونوں کے خمیر میں اپنے اقتدار کا مفاد رچا بسا ہوتا ہے جس سے حق داروں کے حقوق غصب ہوتے ہیں جو نفرتوں کو جنم دیتے ہیں۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کے شہریوں کے معیار زندگی ، سیاسی ، سماجی اور معاشی حقوق میں عدم مساوات کو پاکستان ٹوٹنے کے عوامل سے کسی بھی طرح الگ نہیں کیا جا سکتا بالکل اسی طرح جیسے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کو لاحق خطرات کو جواز بنا کر الگ وطن کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔
1970 کے الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کی جمہوریت کی بحالی کی تحریک کے سپاہی اور مشرقی پاکستان کے عوام کی محرومیوں کی زبان بن کر ابھرنے والے شیخ مجیب کی سیاسی بالا دستی کو جنرل ایوب خان کے جانشین جنرل یحیی خان نے تسلیم نہیں کیا بلکہ الٹا قوم کی محسنہ محترمہ فاطمہ جناح کی طرح محب وطن شیخ مجیب کو بھی غدار وطن کے منصب تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ایسا دوسری مرتبہ ہورہا تھا جب عوام کی مرضی کے خلاف اقتدار پر قابض ہونے والے محب وطن اور عوام کی رائے سے منتخب ہوکر ابھرنے والے سیاسی لیڈر غدار ٹھہرائے گئے۔
کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ جس سرزمین پر حصول پاکستان کی تحریک کی بناء پڑی ہو اسی سرزمین کے لوگ بلاوجہ اپنے حاصل کردہ وطن کو توڑنے کے گناہ میں شریک ہو جائیں؟
ناانصافی اور محرومیاں نفرتوں کو جنم دیتی ہیں پھر ان پر آواز بلند کرنے والے مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں کیا مشرقی پاکستان پر لشکر کشی کرنے اور انکا ساتھ دینے والے کرداروں کو ان پہلووں پر غور کرکے اپنے طرز عمل پر ندامت کا احساس ہو سکے گا؟
کیا موجودہ پاکستان سے وہ عوامل جن کی وجہ سے پہلے ملک دولخت ہوا کا تدارک ہو گیا ہے ؟ کیا مفاد پرست عناصر سے ملک محفوظ ہو گیا ہے؟ کیا ملک کے تمام علاقوں کا معیار زندگی برابر ہو گیا ہے؟ کیا ملک سے ناانصافی اور محرومیاں ختم ہو گئی ہیں؟ کیا ملک کے تمام شہریوں کو آئین کے مطابق انسانی احترام ، تعلیم ،علاج ،روزگار، تحفظ اور سیاسی مساوی حقوق حاصل ہوگئے ہیں؟
اگر ایسا نہیں ہے تو کیا ایک مرتبہ پھر نانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والوں اور آئین میں دئے گئے حقوق مانگنے والوں کو غدار ٹھرایا جائے گا اور ان پر لشکر کشی کی جائے گی؟
غور طلب پہلو یہ ہے کہ کیا صرف مشرقی پاکستان کے لوگ ہی غلط اور غدار تھے اور موجودہ پاکستان کے کرتا دھرتا درست اور محب وطن؟
سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے ماضی سے کچھ سبق حاصل کر پائیں گے یا اسی ڈگر پر چلتے رہیں گے #
(خلیل احمد تھند )