سرائیکی دھرتی کے خوبصورت لوک گیت
تحقیق و تحریر: ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
altafkhandahir@gmail.com
تیسری و آخری قسط
جدید دور میں سرائیکی لوک گیتوں کے اثرات اور تحفظ کی تجاویز
سرائیکی لوک گیت نہ صرف سرائیکی ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں بلکہ جدید فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ان گیتوں نے ریڈیو پاکستان ملتان،بہاولپور،ڈیرہ اسماعیل خان اور سرگودھا کے ذریعے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔سرائیکی لوک گیتوں کو دستاویزی شکل میں محفوظ کرنے کے لیے تحقیقی مراکز کا قیام ضروری ہے۔ان گیتوں کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ نئی نسل ان کے ورثے کو سمجھ سکے۔
لوک فنکاروں کی سرپرستی اور ان کے لیے مالی معاونت فراہم کی جائے۔سرائیکی لوک گیت دھرتی کے پھولوں کی مانند ہیں جو اپنی خوشبو اور خوبصورتی سے نسل در نسل لوگوں کے دلوں کو معطر کرتے رہیں گے۔ان گیتوں کے ذریعے سرائیکی ثقافت کا پیغام محبت، امن اور یکجہتی پوری دنیا میں پھیلتا رہے گا۔
پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سرائیکی دھرتی کے خوبصورت لوک گیت
سرائیکی لوک گیتوں کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود سرائیکی شاعری کی تاریخ ہے۔سرائیکی وسیب میں اہم لوک گیتوں کےنمونے سرائیکی قومی شعور،مزاج اور دھرتی کے رسوم و رواج روایات کی عکاسی پیش کرتےہیں۔ریڈیو پاکستان بہاولپور، ریڈیو پاکستان ملتان، ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان، ریڈیو پاکستان سرگودھا نے سرائیکی خوبصورت لوک گیتوں کو بلندیوں تک پہنچایا۔سرائیکی عام لوک فنکاروں کو صدراتی ایوارڈ یافتہ گلوکار بنایا۔ریڈیو پاکستان پر چلنے والے سرائیکی لوک گیت بچوں،نوجوان،عورتوں اور بوڑھوں میں یکسر مقبول تھے۔
دوسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سرائیکی دھرتی کے خوبصورت لوک گیت
آج بھی نئی نسل کو بوڑھے بزرگ سرائیکی لوک گیت سنا کر دل کا بوجھ ہلکا کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔اب نوجوان نسل اپنے قومی ورثے کی حفاظت خود کرے گی۔سرائیکی وسیب نگری مظہر جلال ہے۔یہاں کے لوک گیت خواجہ غلام فرید کی مادری زبان سرائیکی کے271 کافیوں نے ہر طرف خوشبو بکھیر دی ہے۔آج بھی روہیلا اپنے اونٹ،بھیڑ بکریوں،گائے کے ریوڑ کے ساتھ تصوفانہ کرشماتی مادری زبان سرائیکی میں لوک گیت گا کر اپنا سفر طے کرتاہے۔جس طرح بچہ صرف ماں کی گود میں ماں کی لوری سن کر اپنے آپ کو محفوظ اور روحانی اطمینان وسکون قلب محسوس کرتاہے۔اسی طرح مادری زبان میں لوک گیت ہی انسانوں کی جنت کے میٹھے سریلے ملی نغمے ہیں۔تمام صوفیاء کرام نے ہمیشہ انسانوں کی اخلاقی اقدار کی تربیت اور رشدوہدایت کے لیے مادری زبان ہی کو ذریعہ اظہار اپنایا ہے۔
اساں لوک سرائیکی
ساڈی جھوک سرائیکی
اساں امن محبت دے داعی
اساں نگر پریم دے واسی
میری بیٹی رابیل الطاف ڈاھر، عبداللہ سچل ڈاھر سے چھوٹی مگر زینب رابیل الطاف سے بڑی ہے۔مائی کلاچی کے جدید روشنی کے شہر سابق دارالحکومت پاکستان،سندھ صوبےکا مرکزی تجارتی بین الاقوامی شہرت یافتہ شہر کراچی،غریب کی ماں،محبت وامن کا خوبصورت سمندری خطہ سیکٹر سرجانی ٹاون میں رہائشی نانا نانی،ماما مامی،اب چھوٹے ماموں کی شادی پر خود بخود سہرے خوشی کے گیت اپنے شہر احمدپورشرقیہ گھر میں گا رہی ہے۔”پیارا گھوٹ ماموں جیوے،سہرا پاوے خوش تھی وے”اپنی والدہ کو گنگاہٹ میں سنا کر داد تحسین پاتی ہے۔میرے لئے ایک حسین دلربا منظر ہوتاہے۔عجیب خوشی کا سماں ہوتا ہے۔جذبوں کی نہ تھمنے والی دلکش روح پیدا ہوتی ہے۔یہ سحر انگیزی سرائیکی لوک گیت میں ہے۔چند سرائیکی مشہور لوک گیتوں کے نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
بچوں کے گیت
جھل پکھا تے آوے ٹھڈی وا
میڈے ویرکوں مہندی دا رنگ چالا
خوشی پرنے(شادی) کے گیت
"پُھلاں والی ارائین سہرا پھلاں دا پوا
جیوی پیو تے بھرا،ساڈا دل نہ رنجا”
شادی کے موقع پر گاناں بدھائی کا گیت
"تیڈے گانے کوں لاواں گھیو خاناں
تیڈی جنج سوہیسی پیو خاناں
تیڈی خیر اللہ ہوسی ہن گانا بدھ خاناں”
مہندی کے گیت
"مہندی کوں لاواں مینڑ
تیڈیاں ویلاں گھلیسم بھینڑ”
شادی سہرے کے گیت
"حوراں پریاں سہرے گانون
وارو واری ویلاں پانون
وے میں سہرا تیڈا گانواں وے
شہزادہ بنا وے، سوھنا بنا وے”
"میں تاں تھال مہندی دا چائی کھڑی آں
میں تاں پھلاں واری سیج سجائی کھڑی آں”
دوران رقص سرائیکی جھمر کے گیت
"کوٹھے تے پڑ کوٹھڑا وے
تے کوٹھےسکدا اے گھا بھلا
لکھ لکھ چٹھیاں وے
میں تھک ہٹیاں
تو کہیں بہانے آ بھلا”۔
"دل تانگھ تانگھے،
اللہ جوڑ سانگھے
سجناں دا ملنا
مشکل مہانگے”
سرائیکی ریاست بہاولپور کا سرائیکی لوک گیت سرائیکی ساڑھے سات کروڑ سرائیکی صوبے سے محروم سرائیکی قوم کا قومی لوک گیت اب سرائیکی ترانے کا روپ دھار چکا ہے۔میلوں اور یونیورسٹی کلچرل فیسٹیول میں نوجوان نسل کا روحانی منزل مقصود بن چکا ہے۔آج کل سوشل میڈیا پر ہر طرف اس کی گونج ہے۔دیرہ جات میں سرائیکی لوک گیت نوجوان نسل کا خوبصورت ثقافتی روحانی نغمہ بن چکا ہے۔سرائیکی علاقوں میں جھنگ اور میانوالی کو سرائیکی وسیب کی شعر ونغمہ کی سرزمین کہا جاتا ہے
کھڑی ڈیندی آں سنہڑا اناں لوکاں کوں
اللہ آن وساوے ساڈیاں جھوکاں کوں
چھلے کے گیت
"چھلا پاتی کھڑی آں ہک
میڈی نئیں پئی لاہندی سک
میکوں تیڈی پئی اے چھک
منہ ڈکھاویں چا”۔
تیڈے کھوہ تےآئیاں پانڑی پلا ڈے
سخناں دا کوڑا ساڈے چھلڑےولا ڈے
ڈھولے کے گیت
"بزار وکاندی تر وے
میڈا سوڑی گلی وچ گھر وے
تے پیپل نشانی وے ڈھولا
بزار وکاندی پنڈ وے
تیڈے بت وچ میڈی جند وے
ہکو کر سمجھیں وے ڈھولا”۔
نہ مار جھمراں نظر لگ ویسی میڈا "نکا جیا ڈھولا دل کھس ویسی”
"میں اتھاں تے ڈھول ملتان اے
ساڈی ڈھولے دے وچ جان اے”
ماہیے کےگیت
"ککراں دے پھل ماہیا
اساں پردیسی ہیں
ساڈے پچھوں نہ رُل ماہیا”
"او ماہیا ماہیا پھل گلاب دا”۔
"بالو بتیاں وے ماہی ساکوں مارو سنگلاں نال
پتل بنڑایوس سوھنا بنڑساں عملاں نال”
سوھنڑیا او ماہیا قد سجناں دا چھوٹا اے،اوڈو چن دا او ٹوٹا اے
رسنڑ/روٹھنے کے گیت
میڈا چن مساتا،میڈا چن مساتا
اینویں نی کریندا،لوکاں دے آکھے رُس نئیں ونجیندا”۔
"وے بھورل آ وے بھورل آ
ہک واری کھل تے آلائی ونجن”
"کڈاں ول سو سوھنا سانول آ
وطن ساڈے غریباں دے”
"ساوی موراکین تے بوٹا کڈھ ڈے چولے تے
رُٹھی نی منیساں بہوں ناراض ہاں ڈھولے تے۔”
سرائیکی لوک گیت دراصل سرائیکی وسیب کا منظر نامہ ہیں۔خوف،خوشی و غمی کے موقع پر انسان نے گنگاہٹ سے دونوں ہاتھوں کی برابر ردھم،سر سنگیت کے فن کمال سے محبت کے گیت گا کر دنیا میں امن کےپیغام کو عام کیا تھا۔آج پھر سے سرائیکی سہرے کا محبت نامہ نئی نسل تک پہچانا ہوگا۔سرد موسم ،محبت و امن کا گہوارہ اور بہاروں کا نام ہے۔عاشقوں کے لیے چاہت کی درگاہ ہے۔دنیا میں نفرت،دشت گردی،حرص و ہوس،لالچ کو سادہ نفیس مٹھاس بھرے رسیلے خوبصورت سرائیکی لوک گیتوں میں سادگی،محبت،احترام آدمیت،خلوص جیسے موضوعات کی بدولت ہر برائی سے نمٹا جاسکتا ہے۔سریم کے پھل،سرسوں کا ساگ، مکھن مکئی اصل میں خوشحالی و ترقی اور امید نو کا نیا ماہ جنوری 2025مبارک سال کا خوبصورت لوک گیت ہے۔
بازار وکیندیاں گندلاں
ڈینہہ ڈس گیوں پورے پندراہاں
مدتاں لایاں نی ہو ڈھولا!
ختم شد.







