کیا سرائیکی لوک قصے دنیا میں زندہ رہیں گے؟
ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
قسط کا خلاصہ
سرائیکی قصے، جو ماضی میں نسلوں کے شعور کو جلا بخشتے رہے، آج بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ سرائیکی زبان و ادب کے نامور محققین کے مطابق، یہ قصے سرائیکی وسیب میں ترقی و خوشحالی کے ضامن ہیں۔ قصوں نے انسانیت کو شرافت، صداقت، اور دیانت کے اصولوں پر قائم رہنے کا درس دیا ہے۔ سرائیکی لوک قصے ہمیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ انسانی زندگی کے لیے رہنمائی کا ذریعہ رہیں گے۔
چوتھی و آخری قسط
اب ہم قصےکتابوں،انٹر نیٹ،،فلموں،ڈراموں،تھیٹر،سینما گھروں،ویڈیو گیمز اور ریڈیو کے ذریعے نہ صرف سنتے ہیں بلکہ دیکھتےاور محسوس بھی کرتے ہیں،گویا قصے کے ہم خود زندہ جاوید کردار ہیں۔خود قصے کی دنیا میں جی رہے ہوں۔ یہ سب کچھ "فکشن” افسانوی ادب کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس طرح قصہ گوئی کا فن آج بھی زندہ ہے۔اور نئی نئی شکل اختیار کر رہا ہے۔قصوں کی کی داستان نے انسانیت کی مشترکہ آواز کے طور پر حضرت انسان کے ارتقاء میں ایک بنیادی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔یہ صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ قصے نےانسان کی زبان،ادب،شعور، فنون لطیفہ، اخلاقی اقدار،سلیقہ،ریتروایت،علمی،روحانی،شناخت،ثقافت اور سوسائٹی،قوم و ملک کی تشکیل نو میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور کرتا رہےگا۔

پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

کیا سرائیکی لوک قصے دنیا میں زندہ رہیں گے؟
قصولیوں کی پہلی ادبی بیٹھک ہی انسانوں کی پہلی یونیورسٹی کہلائی۔جہاں سے علوم کی فنی مہارتوں کے سیکھنے اور تعلیمی تربیت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ماں کی گود میں بچہ سکون واطمینان قلب کا خوبصورت پہلاں مٹھاس بھری آواز میں قصے کے الفاظ ہی سنتا ہے۔قصے نے انسان کی سوچ کو پروان چڑھایا،تخلیقی صلاحیتوں کو تقویت بخشی اور تاریخ کو محفوظ کیا۔

دوسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کیا سرائیکی لوک قصے دنیا میں زندہ رہیں گے؟
مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے تنوع سے بھریل لوک قصے ہی اپنی منفرد روایت اور پہچان رکھے ہوئےہیں۔انسانوں کےمشترکہ تجربات ومشاہدات ہم تک مختلف انداز میں قصے کی بدولت پہنچےہیں۔مثلاً، یونانی دیوتاؤں کی قصے،جہاں دیوی دیوتاؤں کو انسانوں کی طرح ہی جذبات اور کمزوریاں حاصل تھیں،ہندو متھالوجی و فلسفہ کے قصےجو روحانیت اور کائنات کے رازوں پر زیادہ زور دیتے ہیں،افریقی لوک قصے جن میں جانور اکثر انسانی کردار ادا کرتے ہیں اور اخلاقی سبق دیتے ہیں۔جاپانی تہذیب وتمدن سے جڑے لوک قصےجو فطرت اور انسان کے رشتے کو ایک مختلف تناظر میں پیش کرتے ہیں۔عبرانی و عربی زبان کے مہان کلاسیکل لوک قصے جیسا کہ "الف لیلہ ولیلہ(ایک ہزار ،ایک راتیں)” یہبادشاہوں،ملکہ،شہزادیوں،ملوک زادیوں،وزیروں،غلاموں اور سحر و جادو کے دلچسپ قصے جو ایک نئی دنیا سے روشناس کراتے ہیں۔

تیسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

کیا سرائیکی لوک قصے دنیا میں زندہ رہیں گے؟
چائنیز وذڈم سے مالا مال قصے، جس میں ڈریگن اور اژدہاؤں کا ذکر ہے یہ طاقت،ترقی،خوشحالی اور قدرتی قوتوں کی علامت ہیں۔اہل فارس کی روحانی کرامتوں کے قصے،نیز خواجہ غلام فرید کی سرائیکی شاعری، کنفیوشس،شیخ سعدی،رفعت عباس کی تعلیمات پر مبنی حکایتیں جو ہمیں اخلاقیات اور حکمت سکھاتی ہیں۔یہ مختلف سلیقے،انداز اور نقطہ نظرہمیں کامیاب حیاتی گزارنے اور کائنات کے پر اسرار رازسمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ قصے صرف تفریح نہیں بلکہ کسی قوم کی حقیقی معنوں میں میری سوچ کے مطابق تہذیب وتمدن، تاریخ، ثقافت کا آئینہ بھی ہوتےہیں۔جو ان کی سوچ،تربیت، عقائد،رسوم و رواج روایات اور ادب و فکری علوم کو بڑی خوبی سے بیان کرتے ہیں۔یہ مختلف انداز اور نقطہ نظر سے ہماری رہنمائی بھی کرتے ہیں۔

مقامی سرائیکی قصوں کی روایت نے انسان کو ایک دوسرے سے جوڑنے اور دنیا کو سمجھنے کا ایک زبردست ذریعہ عطاء کیا ہے ۔قصے کیا ہمیشہ زندہ رہیں گے؟۔جی ہاں، جب تک دنیا ہے، امید ہے، محبت ہے اور اس کی رنگولی ہے قصے بھی زندہ رہیں گے ۔قصے عظیم مخلوق حیوان ناطق انسانوں ایک دوسرے سے رشتہ جوڑنے اور معاشرہ کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتے رہیں ہیں اور کرتے رہیں گے۔مگر دوسرے رخ سے انہی قصوں کی وجہ سے آپس میں جنگیں،لڑائیاں،نفرتیں اور سوسائٹی میں توڑ پھوڑ اور خون خرابا کی نوبتیں سامنے آئیں ہیں۔مگر ہمیشہ قصے کے حقیقی نتائج و تعلیمات فلسفہ امن و تربیت،کامیابی،بھلائی،فلاح انسانیت اور رشدوہدایت ہی رہے ہیں۔

قصوں میں شر کی شکست ہی احترام آدمیت کی بقاء ہے۔قصہ مثبت اثبات و اثرات کا خوبصورت تذکرہ ہے۔نیکی و نصیحت کا باکمال ہنر قصہ گری ہے۔سرائیکی قصہ سرائیکی قوم کی اجتماعی یادداشت ہے۔اس نے ہر حملہ آور کا آدر کیا ہے۔دینی اور قومی قصے خاص طور پر اس حوالے سے مضبوط مثالیں ہیں۔سرائیکی زبان و ادب کے حکمت و دانش سے لبریز لوک قصے حقیقت،تخیلات، وہم، سچ اور جھوٹ، اچھا اور برا، محبت اور نفرت یعنی ماضی، حال اور مستقبل کے بارے سب کچھ علم و تربیت کے مخفی ظاہری راز اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ قصوں میں انسانوں کے سماجی و اخلاقی اقدار کی عملی مثالی تصاویر موجود ہیں۔قدرت قصہ،کہانیوں،داستانوں اور افسانوں کو ایک طرف تو ہمارے لیے ایک قیمتی اثاثہ بناتی ہے اور دوسری طرف ایک پیچیدہ مسئلہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں سوالات جنم لیتے ہیں کہ انسان کے مستقبل میں ان قصوں کا کیا رول ہونا چاہئے یا ہوگا۔

سوال یہ ہے؟کیا اب آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور ڈیجیٹل سوشل میڈیا دور میں قصوں کی اہمیت و افادیت کم ہو جائے گی؟اورکیا موجودہ انسانی صدی قصوں کی آخری صدی کہلائےگی؟اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا ۔مگر آج بھی قصوں کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔آج بھی ہم قصے سننا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں اور سینما گھروں میں فلموں کی نمائش دراصل انسانی قصے کی شعوری پختگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ہالی وڈ،لولی وڈ ،بالی وڈ موجود فلم انڈسٹریز قصوں کی عملی دنیا ہے۔قصے نے نیوز یعنی نارتھ،ایسٹ،ویسٹ، ساوتھ مشرق،مغرب،شمال جنوب کی فنی مہارتوں کو سیکھنے،دیکھنے،پڑھنے اور لکھنے کے عمل کو فروغ دیا۔ہمارے بہت سے تصورات و نظریات انہی قصوں اور افسانوں کی بنیاد پر بنے ہیں اور اسی لیے قصے کو دنیا میں سب سے طاقتور اور آسان فہم میڈیم سمجھا جاتا ہے۔

سرائیکی لوک قصہ جس نے چھ ہزار سال قدیم ماں وادی ہاکڑہ تہذیب وتمدن اور بیٹی وادی سندھ تہذیب وتمدن کے ساتھ ہم عصر و ہم پلہ میسوپوٹومپیا سمیرین اور مصری اہرامی تہذیب وتمدن کے اعلی شعور کے ساتھ دنیا کو زندگی گزارنے کا سلیقہ اور نصیحت و وصیت کا عملی کامیاب نصاب مہیا کیا ہے۔سرائیکی لوک قصوں کی وذڈم کی حفاظت کرنے والے روہی چولستان، دمان پہاڑ، تھل،راوا ،میدان،دریائی و سمندری،ہڑپہ،جلیل پور،ہڑنڈ،سوئی وہاڑ،پتن منارہ، مہرگڑھ ،موہنجوداڑو،رحمان ڈھیری،بلوٹ قلعہ، ملتان شریف، اوچ شریف سمیت سرائیکی قدیم گنویری والا شہر کےقصولیوں کی طرح دنیا کے ہر قصولی کےتحفظ و مراعات کے لیے اقوام متحدہ آثارقدیمہ ریسرچ اداروں اور حکومت پاکستان کی طرح ہرملک کی حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اپنے لوک ورثے کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ورلڈ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹس کو گنویری والا شہر پر ہاکڑہ یونیورسٹی بنانا ہوگی۔

امن و تصوف کے روحانی قصے کی افادیت و تحفظ کی عملی ضمانت کیلئےحضرت سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع صوفی ازم اینڈ آرکیالوجی سائنس یونیورسٹی ورلڈ ہیرٹیج سٹی اوچ شریف میں فوری قائم کرنا ہوگی۔غزہ،دمشق،یوکرائن اور کشمیر سمیت دنیا کے ہر کونے سے جنگ ونفرت کے قصے کو ختم کرکے امن،رواداری،خوشحالی اور تصوف کے قصے کو عالم میں پھر سے عام کرنا ہوگا۔ورنہ نئی نسل اپنے قومی ورثے سے محروم رہ جائے گی۔شاید اپنی بقاء کا تحفظ بھی نہ کرسکے۔
ختم شد

Shares: