سرائیکی صوبہ کیوں ضروری ہے؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
ایک علیحدہ سرائیکی صوبے کا مطالبہ ایک عرصے سے زیر بحث ہے لیکن حالیہ دنوں میں کچھ واقعات نے اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ خواجہ غلام فرید کے مزار پر منعقد ہونے والی "روہی انٹرنیشنل پنجابی کانفرنس” کے دوران دیے گئے متنازع بیانات اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز نے سرائیکی اور پنجابی عوام کے درمیان تنازع کو ہوا دی ہے۔ ان بیانات میں سرائیکی عوام کو "پناہ گزین” کہہ کر پنجاب چھوڑنے کی دھمکیاں دی گئیں جو نہ صرف ایک سنگین مسئلہ ہے بلکہ یہ قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی منظم کوشش کا بھی اشارہ دیتا ہے۔ ایسے بیانات عوام میں نفرت کو بڑھاتے ہیں اور ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں جو معاشرتی تقسیم کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔
یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ تنازع کس کے مفاد میں ہے اور اس کے پیچھے کون سے عناصر سرگرم ہیں؟ اگر ماضی پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان دشمن قوتوں نے ہمیشہ لسانی اور نسلی بنیادوں پر ملک کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دینا، خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا فروغ، سندھ میں قوم پرستی کو بڑھانا اور اب پنجاب میں سرائیکی اور پنجابی عوام کے درمیان اختلافات کو جنم دینا اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے۔ ماضی میں ایسی کوششیں ناکام ہوتی رہی ہیں لیکن اب ایک بار پھر ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔
سرائیکی قوم اپنی قدیم ثقافت، زبان اور تاریخی ورثے پر فخر کرتی ہے۔ چولستان کے قدیم شہر گنویری والا کی دریافت اس بات کا ثبوت ہے کہ سرائیکی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے۔ اس علاقے کے لوگ اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں۔ سرائیکی وسیب کے عوام کا مطالبہ ہے کہ انہیں علیحدہ صوبہ دیا جائے تاکہ وہ اپنی ثقافت، زبان اور تشخص کا بہتر تحفظ کر سکیں۔ اس کے علاوہ سرائیکی وسیب کی معاشی پسماندگی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں کے عوام کو تعلیم، صحت اور روزگار کے یکساں مواقع حاصل نہیں ہیں، جس کی وجہ سے یہ خطہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ ایک علیحدہ صوبہ اس علاقے کی ترقی کی راہ ہموار کر سکتا ہے اور عوام کو وہ حقوق دلوا سکتا ہے جن سے وہ طویل عرصے سے محروم ہیں۔
سرائیکی عوام کو جنوبی پنجاب یا پنجاب کہلانے پر بھی اعتراض ہے کیونکہ وہ اپنی الگ ثقافتی اور لسانی شناخت رکھتے ہیں۔ وہ خود کو پنجابی نہیں سمجھتے اور ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں ایک علیحدہ شناخت دی جائے۔ ماضی میں کئی سیاسی جماعتوں نے سرائیکی صوبے کے قیام کے وعدے کیے لیکن کوئی بھی حکومت ان وعدوں کو پورا کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آئی۔ سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے سرائیکی عوام کو خوش کرنے کے لیے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں لایا، لیکن یہ محض ایک نمائشی اقدام ثابت ہوا۔ موجودہ حکومت تو سرائیکی سیکرٹریٹ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس سے عوام میں مزید مایوسی اور غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔
سرائیکی صوبے کے قیام کے لیے ایک طویل جدوجہد جاری ہے جو 1970 کی دہائی سے مختلف ادوار میں چلتی آ رہی ہے۔ سرائیکی قوم پرست جماعتیں اور دانشور مسلسل یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ سرائیکی وسیب کے عوام کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں اور ایک علیحدہ صوبہ ہی ان مسائل کا واحد حل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بہاولپور ریاست کے پنجاب میں انضمام کو بھی متنازع سمجھا جاتا ہے اور بعض لوگ اس فیصلے کو زبردستی مسلط کیا گیا قدم قرار دیتے ہیں۔
سرائیکی عوام کو طویل عرصے سے سیاسی جماعتوں کی وعدہ خلافیوں کا سامنا رہا ہے اور اس وقت وسیب کے عوام میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ ہر انتخابات میں سیاستدان سرائیکی علاقوں میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے سبز باغ دکھاتے ہیں، لیکن انتخابات کے بعد ان کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب سرائیکی عوام کے اندر یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ انہیں سیاسی جماعتوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنے حقوق کے لیے خود آواز اٹھانی چاہیے۔
سرائیکی عوام کا مطالبہ ہے کہ انہیں دیگر قوموں کی طرح مکمل حقوق دیے جائیں، لیکن عملی طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سرائیکی صوبے کا قیام پاکستان کے استحکام کے لیے ضروری ہے کیونکہ اگر سرائیکی عوام کو ان کے حقوق نہ دیے گئے تو یہ ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے جو قومی وحدت کو کمزور کر سکتا ہے۔ کچھ لوگ موجودہ حکومت کے طرز عمل کو 1971 میں مشرقی پاکستان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے تشبیہ دے رہے ہیں کیونکہ اس وقت بھی بنگالی عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا تھا جس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا تھا۔
سرائیکی دانشوروں اور قوم پرست رہنمائوں کا موقف واضح ہے کہ ایک علیحدہ صوبہ ہی سرائیکی عوام کے مسائل کا حل ہے۔ موجودہ حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں مخلص نظر نہیں آتی اور پارلیمنٹ میں بھی اس حوالے سے سنجیدہ پیش رفت نہیں ہو رہی۔ اگر سرائیکی عوام کو ان کے حقوق نہ دیے گئے تو اس کے نتیجے میں مزید بے چینی اور عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ سرائیکی عوام بغیر کسی سیاسی مفاد کے اپنے حقوق کے لیے خود آواز بلند کریں اور اپنی شناخت، ثقافت اور حقوق کے لیے منظم جدوجہد کریں۔
سرائیکی عوام کا علیحدہ صوبے کا مطالبہ کسی تعصب یا علیحدگی پسندی پر مبنی نہیں بلکہ یہ ان کے جائز حقوق کے حصول کی جدوجہد ہے۔ پاکستان کی مضبوطی اسی میں ہے کہ تمام قومیتوں کو مساوی حقوق دیے جائیں۔ اگر سرائیکی صوبہ بنایا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف وسیب کے عوام کو انصاف ملے گا بلکہ وفاق پاکستان مزید مستحکم ہوگا۔ ایک نئے صوبے کا قیام ملکی انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنائے گا اور ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرے گا، جس سے قومی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔ یہی وقت ہے کہ اس دیرینہ مطالبے کو عملی جامہ پہنایا جائے تاکہ وسیب کے عوام کو احساس محرومی سے نجات ملے اور پاکستان مزید مضبوط اور مستحکم ہو سکے۔