سارے رستے جاتے جاتے اور طرف کو جا نکلے

0
67
dr nuzhat

سارے رستے جاتے جاتے اور طرف کو جا نکلے
اس کی جانب جانے کا پھر کوئی نہ رستہ یاد رہا

ڈاکٹر نزہت عباسی (شاعرہ بنت شاعر)

27 جون 1971: یوم پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کی نامور ادیبہ اورشاعرہ ڈاکٹر نزہت عباسی صاحبہ 27 جون 1971 میں کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ ان کا اصل نام نزہت سلطانہ ہے ۔ محمد حسین عباسی صاحب (ظفر انجمی) ان کے والد اور وقار النساءصاحبہ ان کی والدہ محترمہ ہیں۔ وہ پانچ بہن بھائی ہیں۔ اردو ان کی مادری زبان ہے ۔ 1994 میں ڈاکٹر نزہت صاحبہ کی ظفر اقبال عباسی صاحب سے شادی ہوئی ماشاء اللہ ان کے دو بچے فاکہہ عباسی اور اعتزاز عباسی ہیں ۔

نزہت عباسی شاعرہ محقق اور نقاد ہیں۔ ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں، ان کے والد محمد حسین عباسی ظفر انجمی صاحبِ دیوان شاعر تھے، ڈاکٹر نزہت عباسی زمانہ طالب علمی سے ہی نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں فعال رہیں، ابتدا بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں لکھنے سے ہوئی، اسی دور میں مشاعروں میں شرکت کی، کالج اور یونیورسٹی کے مجلوں کی ادارت کی، بزم ادب کی صدر رہیں، اردو ادبیات میں پوزیشن حاصل کرنے کے بعد اسی سال تدریس کا آغاز کیا۔
2005 میں پہلا شعری مجموعہ ’سکوت‘ کے نام سے شائع ہوا اور دوسرا مجموعہ 2015 میں ’وقت کی دستک‘ کے نام سےمنظرِعام پر آچکا ہے۔ 2011 میں جناح یونیورسٹی برائے خواتین کراچی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی، ان کا تحقیقی مقالہ ’اردو کے افسانوی ادب میں نسائی لب و لہجہ‘ انجمن ترقی اردو نے 2013 میں شائع کیا۔ تحقیقی و تنقیدی مقالات کا مجموعہ ’نسخہ ہائے فکر‘ 2019 میں شائع ہوا۔
ایک مقامی کالج میں شعبہ اردو کی صدر ہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل سے اردو افسانے پر 100 سے زیادہ پروگرام کیے ہیں، مشاعروں اور ادبی تقاریب کی نظامت کے لیے بھی مشہور ہیں، کئی ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں، ادبی تنظیم دبستانِ غزل کی صدر ہیں جس کے تحت ہر مہینے نشست ہوتی ہے۔

تصانیف
ڈاکٹر صاحبہ کی اب تک شائع ہونے والی تصانیف کی ترتیب درج ذیل ہے۔
1. اردو کے ادب میں نسائی لب و لہجہ
2 دستک
3 سکوت
4. نسخہ ہائے فکر

نزہت عباسی صاحبہ کی شاعری سے انتخاب
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
موج دریا کے لبوں پر تشنگی ہے کربلا
ریگ ساحل پر تڑپتی زندگی ہے کربلا

صبر کی اور ضبط کی یہ منزلیں ہیں آخری
عزم اہل بیت کا کیا دیکھتی ہے کربلا

حق کبھی جھکتا نہیں ہے سر بھی کٹ جائے اگر
ذہن و دل کے واسطے اک آگہی ہے کربلا

کیوں سکینہ اور زینب اس قدر خاموش ہیں
دور تک صحرا میں دیکھو خامشی ہے کربلا

مٹ گیا ہے فرق سب فردا میں اور دیروز میں
مات دے کر رخش دوراں کو چلی ہے کربلا

تا قیامت ذکر سے روشن رہے گی یہ زمیں
ظلمتوں کی شام میں اک روشنی ہے کربلا

اے غم شام غریباں اے شب تار الم
اہل دل کو روز و شب تڑپا رہی ہے کربلا

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت میں کمی سی رہ گئی ہے
کہ بس اک بے بسی سی رہ گئی ہے

نہ جانے کیوں ہمارے درمیاں اب
فقط اک برہمی سی رہ گئی ہے

عجب یہ سانحہ گزرا ہے ہم پر
ترے غم کی خوشی سی رہ گئی ہے

سمندر کتنے آنکھوں میں اتارے
تو پھر کیوں تشنگی سی رہ گئی ہے

نہیں چڑھتا ہے اب یادوں کا دریا
مگر اک بیکلی سی رہ گئی ہے

خلش دل میں کوئی باقی ہے اب تک
کہ آنکھوں میں نمی سی رہ گئی ہے

وہی اک بات جو کہنی تھی تم سے
وہی تو ان کہی سی رہ گئی ہے

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود کو اس طرح آج شاد کریں
تم کو بھولیں تمہیں کو یاد کریں

تم سے ملنا نہیں قیامت تک
فیصلہ یہ بھی آج صاد کریں

رنگ کتنے ہیں تیرے چہرے کے
کس حوالے سے تجھ کو یاد کریں

کر کے احسان ہم پہ ناحق ہی
ہم سے وابستہ وہ مفاد کریں

آگ گھر کی انہیں بھی یاد رہے
شہر میں جو کبھی فساد کریں

آج خود سے ذرا سی دیر ملیں
آج پوری چلو مراد کریں

یاد میں ایک مرنے والے کی
آج محفل کا انعقاد کریں

Leave a reply