سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی برف باری بھی بڑھ چکی تھی۔ کشمیر کی پہاڑیوں پر ہر طرف سفید چادر تنی ہوئی تھی۔ برف کے ننھے گالے آسمان سے گرتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے کوئی نرمی سے چھو رہا ہو، مگر حقیقت میں یہ لمس بے حد ٹھنڈا تھا، بالکل ویسا ہی جیسا نصیب کے تھپڑ ہوتے ہیں۔

ریحان اپنی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظریں ان پہاڑوں پر جمی تھیں جن کے اس پار وہ دنیا تھی جس سے اس کا ناطہ خون کے رشتے کی طرح تھا، مگر وہ وہاں جا نہیں سکتا تھا۔ اس کا گھر، اس کا بچپن، اس کے خواب… سب وہیں کہیں رہ گئے تھے، لکیر کے اس پار۔پانچ فروری کی صبح تھی۔ پورے علاقے میں احتجاج کا شور تھا۔ کشمیر کی آزادی کے نعرے گونج رہے تھے۔ بچے، بوڑھے، جوان سبھی سڑکوں پر تھے۔ ریحان کا دل بھی چاہا کہ وہ بھی باہر جائے، چیخے، چلاّئے، مگر وہ جانتا تھا کہ چیخنے سے زنجیریں نہیں ٹوٹتیں۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر یہ دن صرف ایک دن کیوں محسوس ہوتا ہے؟ یہ دن تو سال کے ہر دن ہونا چاہیے، ہر لمحہ، ہر سانس کے ساتھ۔ریحان کی زندگی ایک عام کشمیری نوجوان کی طرح ہی تھی، مگر جب اس کے والد کو رات کے اندھیرے میں گھر سے اٹھا کر لے جایا گیا، تو وہ عام زندگی نہیں رہی تھی۔ والد کے غائب ہونے کے بعد اس کی ماں صرف چند مہینے زندہ رہ سکی۔ وہ خاموشی سے مر گئی۔ کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ بیماری نے مارا یا غم نے۔اب ریحان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا، سوائے اس امید کے جو وہ برسوں سے سینے میں دبائے جی رہا تھا۔ وہ ہر روز اپنی بہن حنا کی تصویریں دیکھتا، جو سرحد پار رہ گئی تھی۔ جب ہجرت کے وقت وہ دونوں بچھڑ گئے، تب حنا صرف چھ سال کی تھی۔ آج وہ کیسی ہوگی؟ شاید بڑی ہو گئی ہو، شاید اس نے بھائی کو بھلا دیا ہو، یا شاید وہ بھی ہر روز کھڑکی سے اسی پہاڑ کو دیکھتی ہو جس پر وہ نظریں جمائے بیٹھا تھا۔آج وہ سڑک پر نکل آیا۔ مظاہرے میں شامل ہونا اس کا خواب تھا، مگر حقیقت میں یہ خواب ایک خطرہ بھی تھا۔ باہر فوجی موجود تھے، آنسو گیس کے شیل برس رہے تھے، گولیاں چل رہی تھیں، مگر لوگوں کی آواز دب نہیں رہی تھی۔ نعرے بلند ہو رہے تھے، "ہم کیا چاہتے؟ آزادی!”

اچانک گولیوں کی آواز گونجی۔ ہجوم میں بھگدڑ مچ گئی۔ آنکھوں میں دھواں، کانوں میں چیخیں اور دل میں ایک عجیب سا خوف تھا۔ مگر ریحان نہیں رُکا۔ وہ آگے بڑھا۔ اسے اپنے والد کی گمشدگی، ماں کی خاموش موت، بہن کی جدائی، سب یاد آ رہا تھا۔ایک دم، سب کچھ ساکت ہو گیا۔ ایک دھماکہ ہوا اور ریحان کے قدم لڑکھڑا گئے۔ اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا۔ گرم خون اس کی انگلیوں سے بہنے لگا۔ وہ زمین پر گرنے ہی والا تھا کہ کسی نے اسے تھام لیا۔آنکھ کھلی تو وہ ایک خیمے میں تھا۔ زخموں کی جلن شدت اختیار کر چکی تھی۔ آس پاس کچھ لوگ زخمی پڑے تھے۔ ایک بوڑھا شخص قریب آیا، "بیٹا، تم بہت بہادر ہو۔ اللہ تمہیں سلامت رکھے۔”

ریحان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، "یہ کب تک چلے گا؟ کب تک ہم ایسے ہی تڑپتے رہیں گے؟”بوڑھے نے آہ بھری، "جب تک ہم خاموش نہیں ہوتے، جب تک ہم اپنے حق کے لیے لڑتے رہتے ہیں۔ پانچ فروری ایک دن نہیں، ایک عہد ہے، ایک وعدہ کہ ہم اپنی زمین، اپنے خون، اپنی پہچان کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔”ریحان نے زخمی ہاتھ سے اپنی جیب میں رکھا ایک کاغذ نکالا۔ یہ ایک خط تھا جو اس نے کبھی اپنی بہن حنا کے لیے لکھا تھا، مگر بھیج نہیں سکا تھا۔

"پیاری بہن،
مجھے نہیں معلوم کہ تم کیسی ہو، کہاں ہو، مگر میں جانتا ہوں کہ تمہیں بھی میرا انتظار ہوگا۔ میں نے کبھی تمہیں بھلایا نہیں، اور نہ کبھی بھلا سکوں گا۔ جب بھی تم آسمان میں چاند دیکھو، سمجھ لینا کہ میں بھی وہی چاند دیکھ رہا ہوں۔ ایک دن، ہم ضرور ملیں گے… سرحد کے اس پار یا اس پار نہیں، بلکہ ایک آزاد سرزمین پر!”
ریحان نے خط کو چوم کر آنکھوں سے لگایا۔ باہر نعرے اب بھی گونج رہے تھے۔ "ہم لے کر رہیں گے آزادی!”وہ جانتا تھا کہ یہ سفر طویل ہے، مگر وہ تھکنے والا نہیں تھا۔ اس کا خواب، اس کی امید، اس کی جدوجہد… سب زندہ تھے۔ پانچ فروری محض ایک تاریخ نہیں، بلکہ ایک یاد دہانی تھی کہ آزادی کا سورج جلد یا بدیر طلوع ہوگا۔انشاالله

ریحان نے زخمی ہاتھ سے آنکھوں کے کنارے پر آئے آنسو صاف کیے اور آسمان کی طرف دیکھا۔ برف باری رک چکی تھی، مگر سرد ہوا اب بھی چل رہی تھی، جیسے شہداء کی سرگوشیاں فضا میں گھل رہی ہوں۔
اس نے دل میں ایک دعا کی:”یا اللہ! یہ جو زمین تیرے نام پر بنی ہے، اسے آزادی نصیب کر۔ ان آنکھوں میں جو خواب ہیں، انہیں تعبیر دے۔ جو مائیں اپنے بیٹوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں، انہیں خوشخبریاں دے۔ جو بہنیں اپنے بھائیوں کی راہ دیکھ رہی ہیں، ان کے دروازے خوشیوں سے بھر دے۔ اے رب! ہمیں وہ دن دکھا، جب یہ سرزمین پھر سے آزاد ہو، جب کوئی دیوار، کوئی لکیر ہمارے پیاروں کو ہم سے جدا نہ کرے۔ جب ہم اپنی وادی میں سکون سے سانس لے سکیں، جب کشمیر کے دریا صرف پانی نہیں بلکہ خوشی کے ترانے بہائیں۔ یا اللہ! ہمیں وہ آزادی دے جس کا وعدہ تو نے مظلوموں سے کیا ہے، اور جس کی گواہی یہ برف پوش پہاڑ صدیوں سے دے رہے ہیں۔ آمین!”

ریحان نے آنکھیں کھولیں۔ خیمے کے باہر آزادی کے نعروں کی گونج تھی۔ اس کے لبوں پر ایک زخمی مگر پُرعزم مسکراہٹ آگئی۔ وہ جانتا تھا کہ یہ جنگ لمبی ہے، مگر اسے یقین تھا کہ دعا اور جدوجہد کی روشنی کبھی بجھنے نہیں دی جائے گی۔ ایک دن، کشمیر ضرور آزاد ہوگا، ضرور آزاد ہوگا

Shares: