ستر برس اور پاکستان کیخلاف بھارتی سازشیں،تحریر: نوید شیخ

ستر سال گزر چکے ہیں ۔ مگر بھارت کی پاکستان کے خلاف سازشیں اور ریشہ دوانیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ ۔ پاکستان پر جنگیں مسلط کرنا ہو ، پاکستان کو دولخت کرنا ہو ، کشمیر پر قبضہ کرنا ہو ، ایف اے ٹی ایف ہو کے پی کے اور بلوچستان میں حالات کو خراب کرنا ہو۔ ہر طرف اور ہر جگہ آپکو بھارت ہی دیکھائی دے گا ۔ پھر پاکستان معاشی طور پر مستحکم نہ ہوجائے اس سلسلے میں بھی ہر جانب اور ہر طرف سامنے بھارت ہی کھڑا سازشیں کرتا دیکھائی دیتا ہے ۔ ابھی حالیہ جو پاکستان میں دہشتگردی کی نئی لہر شروع ہوئی ہے ۔ اس کے پیچھے بھی بھارتی ہاتھ ایکسپوز ہوچکے ہیں ۔ پاکستان دنیا اور عالمی اداروں کو بھارت کی سازشوں بارے بتا بتا تھک چکا ہے ۔ مگر ان کے کان پر جون تک نہیں رینگتی کیونکہ بھارت سے سب کے تجارتی مفادات وابستہ ہے ۔

۔ اچھا میں نے جو چیزیں گنوائی ہیں یہ تو وہ ہیں جن کے بارے سب ہی جانتے ہیں مگر اب بھارت نے پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار بھی شروع کر رکھی ہے ۔ یعنی پراپیگنڈہ ایسا کیا جا رہا ہے کہ پاکستانیوں کو ہی اپنے اداروں سے متنفر کیا جائے ۔ ایسی جھوٹی چیزیں پھیلائی جائیں کہ پاکستانی اندرونی طور پر آپس میں لڑنا شروع کر دیں ۔ اس معاملے میں بھی تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے بھارت کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے ۔ وجہ صرف بھارت کا ایک بڑی مارکیٹ ہونا ہے ۔ ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے آفسسز بھارت میں ہیں ۔ دوسری جانب پاکستان کی بار بار درخواست کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھارتی ایماء پر پاکستان میں اپنے آفسسز نہیں کھولتے ہیں ۔ الٹا پاکستان سے چلنے والے یوٹیوب چینلز ہوں یا فیس بک پیجز ۔۔۔ جو بھی ان پلیٹ فارمز پر بھارت کو ایکسپوز کرتا ہے یا کشمیر پر حق کی آواز بلند کرتا ہے ان کو بھارتی حکومت کے ایماء پر بند کروادیا جاتا ہے ۔

۔ اب جوں جوں کرونا کا زور کم ہورہا ہے ۔ مودی پھر سے اپنے پر پرزے نکال رہا ہے اور پاکستان کے خلاف سازشیں رچائی جارہی ہیں ۔ ایسی ہی ایک سازش بارے پاک فوج نے بھارت کو منہ توڑ جواب دے دیا ہے ۔ ۔ دراصل ایک روز قبل بھارتی خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے بھارتی آرمی چیف Manoj Makand Narawane کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ جنگ بندی اس لیے جاری ہے کیونکہ بھارت نے طاقتور پوزیشن سے بات چیت کی تھی۔ جس پر ردِ عمل دیتے ہوئے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہہ دیا ہے کہ بھارتی چیف کا یہ دعویٰ کہ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی اس لیے ہے کہ انہوں نے طاقتور پوزیشن سے بات چیت کی تھی۔ واضح طور پر گمراہ کن ہے۔۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ جنگ بندی پر صرف ایل او سی کے اطراف بسنے والے کشمیریوں کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان کے خدشات کے باعث اتفاق کیا گیا تھا۔ کسی کو جنگ بندی کو اپنی طاقت اور دوسرے کی کمزوری سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔۔ اچھا یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کبھی بھارتی آرمی چیف سیاچین بارے بے پرکی اڑا دیتے ہیں تو کبھی کشمیر بارے ۔۔۔

۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ یہ حملے کرنے آتے ہیں تو چائے پی کر معافی مانگ کر یہاں سے بھاگنا پڑتا ہے تو کبھی یہ اپنا ہیلی کاپٹر کریش کرواکر اپنے ہی سی ڈی ایس کی موت کا سبب بن جاتے ہیں ۔ ۔ یہ صرف سازش رچ سکتے ہیں حالیہ لاہور اور بلوچستان میں ہونے والے دہشتگرد حملوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ہیں ۔ جو پاکستان دنیا کے سامنے لے آیا ہے ۔ اس سے پہلے بھی یہ افغانستان اور ایران کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے قبائلی علاقوں سمیت بلوچستان اور کے پی کے کو destablizeکرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ان کے حاضر سروس جاسوس کلبھوشن یادو کی گرفتاری ہے ۔ ۔ شیخ رشید نے بھی حالیہ یہ ہی بات کی ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد کاروائیاں کرنے کے پیچھے لوگ بھارت اور افغانستان سے رابطے میں ہیں۔ ۔ تو عمران خان نے اپنے حالیہ چین کے دورے پرچین کے معروف تھنک ٹینکس، یونیورسٹیوں اور پاکستان اسٹڈی سینٹرز کے سربراہان اور نمائندوں سے ملاقات میں بھی یہ ہی بات کہی ہے کہ بھارت کا جارحانہ رویہ اور ہندوتوا نظریہ علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے۔ موجودہ بھارتی قیادت خطے کے دیرپا عدم استحکام کا سبب بن رہی ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارت کے مسلسل مظالم جاری ہیں، دنیا کو کشمیریوں کے خلاف بھارت کے جاری ظلم پر توجہ دینی چاہیے۔۔ میں اتنا جانتا ہوں ۔ چاہے کوئی وقتی سیاسی یا دوسرے فائدے کیلئے یہ نہ سمجھے کہ بھارت پاکستان کا دشمن نمبر ون ہے ۔ ۔ مگر سچ بھی یہ ہی ہے اور حقیقت بھی یہ ہی ہے ۔ آپ چاہے بھارت کے ساتھ جتنا مرضی پیار سے بات کر لیں ۔ جتنا مرضی کاروبار یا دیگر معاملات کی طرف لے آئیں ۔ مگر بھارت نے اپنی جبلت کو نہیں چھوڑنا ۔ اس نے کسی نہ کسی طرح پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم رہنا ہے ۔

۔ پاکستان جو ڈیفنس پر اتنا خرچ کرتا ہے پاکستان نے جو ایٹمی قوت حاصل کررکھی ہے اسکی بنیادی وجہ ہی بھارتی جارحیت ہے ۔ ورنہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کو خطے میں اور کسی سے نہ تو کوئی خطرہ ہے ۔ نہ ہی کوئی مسئلہ ہے ۔ الٹا اگر آپ دیکھیں ۔ تو پاکستان سے اوپر یعنی افغانستان ، سینڑل ایشیا اور ایران کی جانب ٹریڈ نہ ہونے ایک بڑی وجہ بھی بھارت ہی ہے ۔ اسکی سازشیں ہیں ۔ یہ تو میں نے آپ کو چیدہ چیدہ چیزیں بتائی ہیں ۔ اگر indepthدیکھا جائے تو چاول سے لے کر نمک تک ، کنوں سے لے کر آم تک اور ٹیکسٹائل سے لے کر سپورٹس کے سامان تک ۔۔۔ دنیا میں ہر جگہ بھارت پاکستان کی صنعتوں اور تعلقات کو خراب کرنے میں باقاعدہ اپنا مال اور اپنے لوگوں کو سرگرم رکھتا ہے ۔ پھر پاکستان آنے والے دریاوں کے پانی کا رخ موڑنا ہو ۔ یوں ہر بڑے مسئلے کے پیچھے آپکو بھارت ہی دیکھائی دے گا ۔ ۔ اسی لیے تاریخ سے تھوڑی بہت شد بد رکھنے والا کوئی بھی شخص پاکستان کے دشمن نمبر ون کے بارے میں کسی مغالطے میں نہیں رہتا۔۔ کیونکہ گذشتہ ستر سال سے ہم بھارتی جارحیت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ۔ ہم میدان جنگ میں لڑے ہیں۔ ۔ ہم اقوام متحدہ میں بھارتی سازشوں کو مقابلہ کر رہے ہیں ۔۔ ہم تجارتی محاذ پر انکا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ ۔ ہم ایف اے ٹی ایف میں بھارت کا مقابلہ کررہے ہیں ۔۔ ہم سفارتی محاذ پر انکا مقابلہ کررہے ہیں ۔ ۔ اس لیے میرا ماننا ہے کہ بھارت کے ساتھ پائیدار امن کا راستہ تجارت یا کرکٹ نہیں بلکہ اصل حل طلب مسائل پر سنجیدہ بات چیت سے نکلتا ہے۔ جس میں اول نمبر پر کشمیر ہے۔ مودی سرکار کی انتہا پسند پالیسیوں سے قبل ، پاکستان کا ایک مخصوص طبقہ یہ پرچار بھی کرتا تھا کہ اگر پاک بھارت تجارت اس حد تک پہنچ جائے کہ دونوں ممالک کے عوام اور معیشت ایک دوسرے پر انحصار کرنے لگ جائیں تو یہ ممالک اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ ایک دوسرے کے خلاف کوئی اقدام یا ایک دوسرے سے کوئی مطالبہ نہ کر سکیں ۔ کیا اسکا مطلب یہ نہ ہو گا کہ پاکستان موجودہ صورتحال قبول کر لے؟ ایسی صورتحال میں بھارت یک طرفہ طور پر فائدے میں رہے گا کیونکہ پاکستان نہ تو کسی بھارتی علاقے پر قابض ہے اور نہ کسی بھارتی دریا کا پانی روک رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ بھارت کی معیشت پاکستان کی معیشت سے اتنی بڑی ہے کہ وہ کبھی پاکستان پر منحصر نہیں ہو سکتی ۔

۔ اسی لیے جب بھی پاک بھارت مذاکرات یا تعلقات بہتر بنانے کی بات ہو تو کشمیر، سیاچین، سر کریک اور متنازعہ ڈیموں جیسے حقیقی حل طلب مسائل کی بجائے حیرت انگیز طور پر تجارت اور کرکٹ کی باز گشت سنائی دینے لگتی ہے۔۔ ساتھ ہی ایک آواز یہ بھی سنائی دینے لگتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ یعنی تجارت کے لیے ایک دوسرے کو راہداری دینے کا معاہدہ بھی ہونا چاہئیے۔ کیا بھارت کے پاس بندرگاہوں اور زمینی راستوں کی کمی ہے جو اسے پاکستان کے راستے تجارت کی ضرورت ہے؟ ۔ واحد اہم ملک جس سے بھارت کا سمندری یا زمینی رابطہ نہیں ہے وہ ہے افغانستان۔ افغانستان کے راستے بھارت پاکستان میں کیا گل کھلاتا رہا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔۔ اس لیے تجارت میں فروغ کے نام پر بھارت کو افغانستان تک کھلی زمینی رسائی دینے میں پاکستان کا کونسا مفاد ہو گا؟ ۔ مودی سرکار سے قبل ایک دور ایسا بھی رہا ہے جب پاک بھارت تجارت خوب پھل پھو ل رہی تھی۔ اگر ہم اس دور میں ہونے والی پاک بھارت تجارت کے سیاسی پہلو نظر انداز کر کے صرف اقتصادی پہلو بھی دیکھیں تو پاکستان کا مفاد کم ہی نظر آتا ہے۔ ۔ اس دور میں ہونے والی تجارت کے لیے بھی ہمیشہ دو طرفہ تجارت کا لفظ ہی استعمال ہوتا تھا لیکن عملی طور پر پاک بھارت تجارت بہت حد تک یک طرفہ تھی ۔ ۔ دراصل دکھانے کو بھارت نے 1996میں پاکستان کو most favourite nation کا درجہ دے دیا تھا اور خواہش کی تھی کہ پاکستان بھی ایسا ہی کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انڈیا کی پاکستان کے ساتھ تجارتی پالیسی میں بہت سے ایسے
tariff اورnon tariff berarers تھے۔ جنھیں بھارت ختم کرنے کی بجائے آہستہ آہستہ مزید بڑھاتا گیا ۔ اسطرح پاکستان کو
most favourite nation کا درجہ دیے جانے کے باوجود پاکستانی برآمد کنندگان کے لیے بھارت کے ساتھ تجارت میں بہت سی بڑی اور عملی رکاوٹیں پیدا کر دی گئیں جنہو ں نے اس دو طرفہ تجارت کے تمام فائدے بھارت کے تاجروں اور معیشت کے لیے مخصوص کر دیے۔ اسی طرح زراعت میں بھارت اپنے کاشتکار کو ٹیوب ویلوں کی بجلی سے لے کر بیجوں اور دیگر مدوں میں اتنی سبسڈی دیتا ہے کہ پاکستانی کاشتکار قیمتوں میں بھارتی زرعی اجناس کا مقابلہ کرہی نہیں سکتے ۔

۔ رہی بات پاک بھارت سیاسی اور سرحدی تعلقات بہتر بنانے کی تو اسکی چابی دراصل حل طلب مسائل کے حقیقی اور عملی حل میں چھپی ہوئی ہے۔ اگر ہم ان مسائل کو حل نہیں کرتے یا ان پر بات نہیں کرتے تو جتنی مرضی تجارت ہو جائے، مسائل تو وہیں کے وہیں رہیں گے۔

Comments are closed.