ایران کی جانب سے قطر میں واقع امریکی فوجی اڈے العدید ایئر بیس پر بیلسٹک میزائل حملے کے بعد، سعودی عرب میں تعینات امریکی فضائیہ کے جنگی طیاروں نے پرنس سلطان ایئر بیس سے فوری طور پر پروازیں کی ہیں۔

عالمی دفاعی ذرائع کے مطابق، سعودی عرب میں واقع امریکی ایئر بیس سے جنگی طیارےفضا میں بلند کیے گئے تاکہ قطر اور دیگر خلیجی ممالک کی فضائی حدود میں کسی ممکنہ دوسرے حملے یا ایرانی ڈرونز کی نگرانی کی جا سکے۔ قطر میں واقع العدید ایئر بیس مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا اور اسٹریٹیجک فوجی اڈہ ہے۔ ایران کی جانب سے اس بیس کو نشانہ بنانا امریکی مفادات پر ایک براہِ راست حملہ سمجھا جا رہا ہے۔ایران کے پاسدارانِ انقلاب نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ "طاقتور اور تباہ کن” تھا اور امریکی نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کے جواب میں کیا گیا۔

سعودی عرب میں موجود امریکی اور اتحادی افواج کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ پرنس سلطان ایئر بیس سے امریکی طیاروں کی پروازوں کا مقصد نہ صرف فضا کا دفاع کرنا ہے بلکہ ایران کی مزید کارروائیوں کا سدباب کرنا بھی ہے۔ سعودی حکام نے بھی اپنی فضائی نگرانی اور دفاعی تیاریوں کو بڑھا دیا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کے مطابق، خطے میں موجود امریکی افواج کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے فوری اور موثر اقدامات کریں۔ امریکی وزیر دفاع اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف اس وقت وائٹ ہاؤس کی سچوئیشن روم میں موجود ہیں اور حالات پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔

ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق، ایران نے قطر اور عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر بیلسٹک میزائل داغے ہیں، جسے ایرانی آپریشن کا کوڈ نام "اے ابو عبداللہ” یعنی "فتح کی برکت” دیا گیا ہے۔ تہران نے اس حملے کو امریکہ کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حالیہ حملوں کا جواب قرار دیا ہے۔پاسدارانِ انقلاب نے ایک بیان میں کہا کہ ایرانی افواج نے "طاقتور اور تباہ کن میزائل حملہ” قطر کے العدید ایئر بیس پر کیا، جہاں خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ واقع ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا "اسلامی جمہوریہ ایران اپنی خودمختاری، قومی سلامتی اور سرزمین پر کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دے گا۔”ایرانی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے مطابق قطر پر داغے گئے میزائلوں کی تعداد وہی ہے جتنی بمباری امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر کی۔

قطر نے ایران کے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اپنی فضائی حدود اور خودمختاری کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ قطری وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا "ریاستِ قطر اس واضح جارحیت کا بین الاقوامی قوانین کے تحت جواب دینے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔”انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ قطری فضائی دفاعی نظام نے ایرانی میزائلوں کو کامیابی سے روک لیا اور کسی قسم کی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

دوحہ کے ایک رہائشی نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شہر میں شدید دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں اور شہریوں کو پیشگی کوئی انتباہ نہیں دیا گیا۔”ہمارے بچے خوفزدہ ہو گئے، انہیں اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ حکام کی طرف سے کوئی ہدایت یا الرٹ جاری نہیں کیا گیا تھا۔”

ایران کے میزائل حملے سے قبل امریکی طیارے اور بحری جہاز خلیجی اڈوں سے منتقل، سیٹلائٹ تصاویر نے انکشاف کر دیا،سی این این کی رپورٹ کے مطابق، قطر میں واقع العدید ایئر بیس پر ایران کے میزائل حملے سے کئی دن پہلے ہی امریکہ نے اپنے غیر محفوظ طیارے وہاں سے منتقل کر دیے تھے۔ 19 جون کو لی گئی ایک سیٹلائٹ تصویر میں بیس کے رن وے اور ٹارمک (جہاز کھڑے ہونے کی جگہ) تقریباً خالی نظر آتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ طیاروں کو حملے سے پہلے ہی دوسری جگہوں پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ امریکی دفاعی ذرائع نے سی این این کو بتایا کہ یہ اقدام مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں کیا گیا تاکہ امریکی عسکری اثاثوں کو کسی ممکنہ حملے سے محفوظ رکھا جا سکے۔ امریکی دفاعی حکام کے مطابق "یہ طیارے خطے میں بدلتی صورتحال اور ایران کے ممکنہ ردعمل کے پیش نظر دوسری خفیہ مقامات پر منتقل کیے گئے تھے۔”یہ بات اس وقت سامنے آئی ہے جب ایران نے پیر کے روز امریکی نیوکلیئر تنصیبات پر امریکی حملے کے جواب میں العدید ایئر بیس کو نشانہ بنایا۔

اسی طرح بحرین میں موجود امریکی بحریہ کے تمام جنگی جہاز بھی گزشتہ ہفتے ہی نیول سپورٹ ایکٹیویٹی بحرین نامی بیس سے روانہ ہو چکے تھے۔ بحرین میں موجود اس امریکی نیول بیس کو خطے میں امریکی سمندری مفادات کا ایک اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔ابھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ امریکی طیارے اور بحری جہاز کہاں منتقل کیے گئے ہیں، لیکن دفاعی ماہرین کے مطابق یہ اقدام ایک وسیع تر پیشگی حفاظتی حکمتِ عملی کا حصہ ہے تاکہ ایران کے ممکنہ حملوں سے امریکی اثاثے متاثر نہ ہوں۔

ایران کے حملے کے بعد خلیج میں موجود کئی ممالک کی جانب سے اپنی فضائی اور سمندری حدود کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ قطر، بحرین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ہائی الرٹ نافذ کر دیا گیا ہے، جبکہ امریکی فوج مسلسل خطرے کا جائزہ لے رہی ہے۔ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ خطے میں جاری کشیدگی اگر بڑھی تو یہ ایک بڑے عسکری تصادم میں تبدیل ہو سکتی ہے، جس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جا سکتے ہیں .

Shares: