اے اہلِ ایمان! آج کا دن صرف ایک قومی جشن نہیں، بلکہ یہ وہ لمحہ فخرو افتخار ہے جب امتِ مسلمہ نے ایک نئی صبح دیکھی وہ صبح جس کے پہلے چراغِ سفر کو شاہِ صالح، شیرِ صحرا، شاہ عبدالعزیز بن عبد الرحمن آل سعود نے روشن کیا۔ یہ سرزمین صرف ریت اور چٹانیں نہیں، یہاں ہر ذرے میں کعبہ کی خوشبو، ہر نسیم میں اذان کی صدا بسی ہوئی ہے۔ اس لیے مملکتِ سعودی عرب کا قومی دن دراصل ہر مسلمان کے دل کا دن ہے؛ یہ دن ہے توحید کی دعوت، خدمتِ حرمین کی قسم اور امتِ مسلمہ کی تجدیدِ عہد کا۔
1902ء جسے تاریخ میں ایک سنہری سنگِ میل کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے، اسی سال شاہ عبدالعزیز نے ریاض کو فتح کر کے نہ صرف ایک شہر بلکہ ایک قوم کو بیدار کیا۔ اس فتح میں جذبہ و حوصلہ اور ولولہ تھا، مگر اس سے زیادہ ایمان کی روشنی اور حرارت تھی ۔ایک بصیرت جس نے خانہ بدوش قبیلوں کو ایک امت میں ڈھالا۔ صحرا کے شیر اور مرد ِ صالح شاہ عبدالعزیز کے دورِ حکومت میں نجد، الاحساء ، قطیف، مکہ و مدینہ سمیت دیگر علاقوں کو ایک پرچم تلے لا کر جدید سعودی سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب شاہ عبدالعزیز نے انقلابِ تعمیر کے ساتھ ساتھ دلوں کی تعمیر بھی کی قرآن و سنت کو عوامی زندگی کا مرکز بنایا اور امتِ مسلمہ کے لئے اتحاد و اشتراک کے دروازے کھولے۔
شاہ عبدالعزیز نے جب اسلامی دنیا کے بڑے رہنماؤں کو 13 تا 19 مئی 1926ء میں اپنے ہاں مدعو کیا تو انہوں نے یہ واضح کر دیا کہ ریاست کا سفر سیاسی یا سیاحتی نہیں بلکہ روحانی و فکری سفر ہوگا۔شاہ عبدالعزیزکی دعوت پر بلائی گئی اس کانفرنس میں ہندوستان سمیت دور دراز کے علما و رہنما شریک ہوئے، جس میں بر صغیر کے جید علمائے اہلحدیث سمیت مولانا محمد علی جوہر جیسی عظمتیں بھی موجود تھیں۔ یہ اجتماع امتِ مسلمہ کے لیے ایک تاریخی نقطۂ عروج تھا ایک صدائے اتحاد جو آج بھی صحرا کی ہوا میں گونجتی محسوس ہوتی ہے۔
صحرا کے شیر اور مرد ِ صالح شاہ عبدالعزیز نے صرف زمینیں ہی فتح نہیں کیں، بلکہ برائیوں کو بھی جڑ سے اکھاڑنے کی جدوجہد کی۔ انہوں نے شراب و بدعنوانی کے مراکز کو ختم کیا، لوٹ مار اور جرائم وڈاکہ زنی کے خلاف سخت اقدام کیے اور خاص طور پر تعلیم کی بنیاد رکھی۔ 1944ء میں مدینہ منورہ میں قائم ہونے والی جامعہ اسلامیہ نے علومِ اسلامیہ کے فروغ کو نئی جہت دی ایسی جامعہ جس میں عالم اسلام کے طلبہ مفت وظیفوں اور رہائش کے ساتھ علم حاصل کرتے ہیں۔ یہ یونیورسٹی نہ صرف علم کا گہوارہ بنی بلکہ امت کی فکری قوت کا سرچشمہ بھی ہے ۔اس وقت دنیا بھر میں یہ علوم اسلامیہ کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے جس میں پوری دنیا سے تشنگان علوم دینیہ آتے اور علوم سے سیراب اور آراستہ ہوکر اسلام کی تبلیغ واشاعت کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ یونیورسٹی اسلام کے غلبہ واحیاء کی ایک عالمی تحریک ہے ۔
صحرا کے نیچے تیل کی صورت میں موجود چمکتی نعمت نے سعودی معاشرہ کو بدل ڈالا تیل کی دریافت نے ملک کی تقدیر بدل دی۔ جس معاشی ڈھانچے کا دارومدار کبھی حاجیوں پر عائد ٹیکس تک محدود تھا، وہ جلد ہی عظیم اقتصادی قوت بن گیا۔ تیل کی آمدنی نے نہ صرف انفراسٹرکچر، سڑکیں، پل اور ریلوے لائنیں ممکن بنائیں بلکہ حرمین شریفین کی توسیع، مذہبی و تعلیمی اداروں کی تعمیر اور عالم اسلام میں انسانی خدمات کے پھیلائو کے لیے بے پناہ وسائل فراہم کیے۔ شاہ عبدالعزیز نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک ان وسائل کو عوامی فلاح وبہبود ، حرمین کی خدمت اور قرآن و سنت کی نشر و اشاعت پر خرچ کیا یہی وہ روح ہے جو آج بھی سعودی پالیسیوں میں نظر آتی ہے۔
شاہ عبدالعزیز کے بعد آنے والے سعودی حکمرانوں نے اسی روش کو آگے بڑھایا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ان کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جدیدیت اور روایات کے درمیان ایک نادر توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور سماجی ترقی پر عظیم منصوبے شروع کیے۔ امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی کی شاخوں کو ملک کے ہر شہر تک پھیلانے جیسے اقدامات نے علمی فروغ کو تیز کیا۔ بیرونِ ملک تعلیم کے لیے بے شمار اسکالرشپس، ضرورت مند شہریوں کے لیے گھروں کا انتظام اور طبی سہولیات تک رسائی یہ سب اس حکمتِ عملی کا حصہ ہیں جو عوام کے دل جیت رہی ہے۔
مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی توسیع، زمین دوز راستے، سہولیاتِ طواف اور حجاج و عوام کے لیے جدید انتظامات یہ سب اسی عقیدت ومحبت کی عملی تصویریں ہیں جو سعودی حکمرانوں نے قائم کی ہیں ۔ قرآن مجید کی طباعت واشاعت کیلئے ’’ کنگ فہد ہولی قرآن کمپلیکس ‘‘ اور حدیث پرنٹنگ کمپلیکس جیسی کوششیں دنیا بھر میں قرآن و حدیث کی عام دستیابی کو یقینی بناتی ہیں۔ علم کی یہ دولت جب دنیا کے کونے کونے تک پہنچتی ہے تو یہ مملکت کا حقیقی عہد بنتی ہے ۔ اس سے غیر مسلموں کو اسلام کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ وہ حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہیں ۔
پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات تاریخ میں محبت و اعتماد کی مثال ہیں۔ 1951ء کا پہلا باہمی معاہدہ، شاہ فیصل کا پاکستان دورہ، اور شاہ فیصل مسجد کا قیام تعلقات کی قدر و منزلت کے عکاس ہیں۔ 1965ء کی جنگ، 1973ء کے سیلاب یا بعد کے زلزلوں میں سعودی امداد نے ہمیشہ پاکستانی عوام کے لیے امید کی کرن ثابت ہوئے ہیں ۔ حالیہ سیلاب کے دوران بھی سعودی امدادی سرگرمیوں اور دس لاکھ ڈالر سے زائد کی فوری مدد نے ثابت کیا کہ سعودی عرب نہ صرف جغرافیائی طور پر برادر ہے بلکہ دل و دماغ سے بھی ہمارا حامی ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جہاں سعودی معاشرے کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا، وہیں فلسطین، یمن اور شام کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کو اولین ترجیح دی ہے ۔ خاص کر اس وقت پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان جو دفاعی معاہدہ ہوا ہے یہ معاہدہ دراصل امت مسلمہ کے دل کی آواز ہے ۔ اب مسلمان قیادت کا امتحان یہ ہے کہ اس کی قوت صرف داخلی ترقی کے لیے نہ ہو بلکہ عالم اسلام کی فلاح و بہبود کیلئے بھی صرف ہو ۔یہی نقطہ اس قوت کا محور ہو ۔اور یہی جذبہ ہم نے سعودی حکمرانوں میں دیکھا ہے۔
اے میرے بھائیو! سعودی عرب کا قومی دن ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ایمان، تعمیر اور خدمت کی جو روشنی ہوا کرتی ہے، وہ صرف ایک ملک تک محدود نہیں رہتی۔ یہ روشنی امتِ مسلمہ کے دلوں کو روشن کرتی ہے۔ شاہ عبدالعزیز کی بصیرت، شاہوں کی تسلسلِ خدمت، حرمین کی نگہبانی اور پاکستان جیسے بھائی ملکوں کے ساتھ خلوصِ تعلق نے سعودی عرب کو محض ایک ریاست نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کا روشن منارہ بنا دیا ہے۔
آؤ! ہم سب مل کر اس عظیم دن کو خراجِ عقیدت پیش کریں، اور یہ عہد کریں کہ حرمین کی خدمت، امت کی وحدت اور علم و عمل کی ترویج کے اس مقصد کو جاری رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی زبانوں اور اعمال سے اس بھائی چارے کو مضبوط رکھیں۔ سعودی بھائیوں کی خوشیوں میں ہمارا دل بھی برابر دھڑکے، اور جب وہ سربلند ہے تو سراپاِ امتِ اسلام بھی فخر محسوس کرتی ہے۔اللہ پاک سعودی عرب کو ترقی و استحکام عطا فرمائے، حرمین کی حفاظت ہو، اور امت مسلمہ کو وہ عزت و عظمت نصیب ہو جس کی وہ حقدار ہے۔ آمین۔

سعودی عرب کا قومی دن ہرچمِ اسلام کی سربلندی کا دن ،تحریر: ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر
Shares: