سعودی وزارت خارجہ نے قطر پر ایرانی حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کا یہ حملہ کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔
سعودی عرب نے قطر کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایسے اقدامات خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے شدید خطرہ ہیں۔سعودی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، "قطر پر ایرانی حملہ جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور خطے میں امن و امان کے لیے تمام فریقین سے تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔”
دوسری جانب قطر کی حکومت نے ایرانی حملے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس حملے کے بعد قطر کو اپنے دفاع کے لیے جوابی کارروائی کا حق حاصل ہے۔ حکام نے تصدیق کی کہ امریکی فوجی اڈے پر ہونے والے اس میزائل حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔قطر کے وزارت دفاع نے بیان دیا کہ ایرانی میزائل حملے کو روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور صورتحال کو قابو میں لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی فوجی اڈہ شہری تنصیبات اور رہائشی علاقوں سے کافی فاصلے پر واقع ہے، جس کی وجہ سے جانی نقصان سے بچا جا سکا۔
ایران کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس حملے میں اتنے بم استعمال کیے گئے جتنے امریکہ نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے دوران استعمال کیے تھے۔ ایرانی حکام نے یہ بھی کہا کہ امریکی فوجی اڈہ شہری علاقوں سے دور ہے اور یہ حملہ ایک دفاعی اقدام تھا۔
اسرائیل کی حکمتِ عملی واضح دکھائی دیتی ہے،پہلے ایران پر حملہ، امریکہ کو مداخلت پر مجبور کرنا، پھر خلیجی ممالک میں امریکی اڈوں پر جوابی حملے، اور نتیجتاً قطر، یو اے ای، سعودی عرب کو جنگ میں گھسیٹنا۔یہ ایک بڑی علاقائی جنگ کا منصوبہ لگتا ہے، جس میں سب فریق بےاختیار ہو جائیں۔
حالیہ دنوں میں مشرق وسطیٰ ایک بار پھر جنگ کی لپیٹ میں آ گیا ہے، اور اس دفعہ جو منظرنامہ ابھر رہا ہے، وہ کسی حادثاتی کشیدگی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی تزویراتی چال معلوم ہو رہی ہے۔ تجزیہ کاروں اور ماہرین بین الاقوامی امور کے مطابق ایران پر امریکی حملے اور اس کے بعد ایران کی جانب سے امریکی اڈوں پر جوابی حملوں کا تسلسل ایک ایسے منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے جس کا مقصد پورے مسلم خطے کو خانہ جنگی میں جھونکنا ہے اور اس منصوبے کی تشکیل میں اسرائیل کا کردار سب سے نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر ایک بڑا حملہ کیا، جس میں فردو، نطنز اور اراک جیسے حساس مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے سے قبل اسرائیل نے مبینہ طور پر ایران کے اندر خفیہ کارروائیوں اور پروپیگنڈے کے ذریعے خطے میں کشیدگی کو ہوا دی۔ اس صورتحال نے امریکہ کو ایران کے ساتھ براہِ راست محاذ آرائی کی طرف دھکیلا۔بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا بنیادی مقصد یہی تھا امریکہ کو جنگ میں کھینچنا،ایران کو اشتعال دلانا کہ وہ امریکی مفادات پر حملہ کرے،اور یوں خلیجی ممالک خصوصاً قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو جنگی اتحاد میں شامل ہونے پر مجبور کرنا۔یہی وہ تزویراتی منصوبہ ہے جس کا مقصد اسرائیل کو خطے میں "واحد مستحکم ریاست” کے طور پر پیش کرنا، جبکہ مسلم دنیا کو داخلی محاذ آرائی اور خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا ہے۔
ایران نے امریکی حملے کے بعد نہ صرف فوری ردعمل دیا بلکہ قطری سرزمین پر قائم "العدید ایئربیس” پر درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل داغے۔ اس حملے میں کوئی امریکی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی،یہ صورتحال اس مفروضے کو تقویت دیتی ہے کہ اسرائیل درحقیقت مسلم دنیا کو آپس میں لڑانے کے منصوبے پر کاربند ہے۔قطر، جو ماضی میں ایران کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا رہا، اب امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے دباؤ میں ہے۔سعودی عرب اور یو اے ای، جو ایران سے سیکیورٹی خدشات رکھتے ہیں، اب خود کو امریکی و اسرائیلی اتحاد کی جانب جھکتے دیکھ رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر خلیجی ممالک امریکی اتحاد میں شامل ہو کر ایران کے خلاف کسی محاذ پر سرگرم ہوتے ہیں، تو یہ ایک نئی عرب عجم جنگ کی بنیاد ڈالے گا، جس میں سب سے زیادہ نقصان امت مسلمہ کو ہوگا۔ یہ ایک ایسا جال ہے جو مسلم دنیا کے لیے داخلی انتشار، معیشتی تباہی اور سفارتی تنہائی کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اس تاثر کو مضبوط کر رہے ہیں کہ ایران پورے خطے کے لیے خطرہ ہے، تاکہ باقی عرب ریاستیں خود کو اسرائیلی دفاعی چھتری کے نیچے لا کھڑا کریں۔ یہ لمحہ مسلم قیادت کے لیے فیصلہ کن ہے۔ یا تو وہ اسرائیلی تزویراتی منصوبوں کو ناکام بنا کر اتحاد، امن اور سفارتی حل کی جانب قدم بڑھائیں، یا پھر ایک ایسی خونی خانہ جنگی میں داخل ہو جائیں جس کا فائدہ صرف دشمنوں کو ہوگا۔