سعودی عرب میں 2024 کے دوران 330 افراد کو سزائے موت دی گئی ہے، جو کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ یہ اضافہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی 2022 میں کی گئی اس یقین دہانی کے باوجود ہوا ہے کہ ان کے وژن کے مطابق مملکت میں موت کی سزا کا خاتمہ کر دیا گیا تھا، سوائے قتل کے معاملات کے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے "ویژن 2030” کے تحت سعودی عرب کو ایک جدید اور کھلا ملک بنانے کی کوششیں تیز کیں، جہاں سیاحت اور تفریحی صنعت کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کی قیادت میں سعودی عرب نے اپنے قدیم مذہبی اور انسانی حقوق کے ریکارڈ کو تبدیل کرنے کی کوششیں کی ہیں، تاہم، حالیہ برسوں میں سزائے موت میں اضافے نے ان کے اصلاحات کے دعووں پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔اس سال کی 330 سزائیں حقوقِ انسانی کی تنظیم "ریپریو” نے ریکارڈ کی ہیں، جسے رائٹرز نے تصدیق کیا۔ یہ تعداد گزشتہ برس کی 172 سزاؤں اور 2022 کی 196 سزاؤں سے بہت زیادہ ہے۔ "ریپریو” کا کہنا ہے کہ یہ اب تک کا سب سے زیادہ ریکارڈ ہے۔

حقوقِ انسانی کی تنظیمیں اور دیگر عالمی ادارے سعودی عرب کی اس پالیسی پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سال 150 سے زائد افراد کو غیر مہلک جرائم میں سزائے موت دی گئی، جن میں زیادہ تر افراد کو منشیات کے اسمگلنگ کے الزامات میں سزائیں دی گئیں۔ ان الزامات کا تعلق شام سے نکلنے والی کپٹگون سے ہے، جو سعودی عرب میں بڑے پیمانے پر اسمگل ہو رہی ہے۔سعودی حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہیں۔ سعودی حکومت کا موقف ہے کہ وہ اپنے قانون کے مطابق، دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے جرائم سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

اس سال کی سزاؤں میں 100 سے زائد غیر ملکی شہریوں کو بھی شامل کیا گیا، جن میں مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ ان سزاؤں کے خلاف عالمی سطح پر تنقید کی گئی ہے کیونکہ ان میں اکثر افراد کو بغیر کسی وکیل یا مناسب دفاع کے موت کی سزا دی گئی ہے۔رائٹرز نے سعودی حکومت سے ان سزاؤں کی تفصیلات کے حوالے سے سوالات کیے، لیکن سعودی حکومت کی طرف سے کسی وضاحت یا جواب کا کوئی جواب نہیں آیا۔

محمد بن سلمان نے 2017 میں اقتدار سنبھالا تھا اور ان کے اقتدار میں آنے کے بعد، سعودی عرب نے سیاسی آزادیوں پر سخت پابندیاں عائد کیں اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے میں عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کیا۔ خاشقجی کو 2018 میں سعودی قونصلیٹ استنبول میں قتل کر دیا گیا تھا، جس پر سعودی عرب کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

محمد بن سلمان نے 2022 میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سعودی عرب نے سزائے موت کا خاتمہ کر دیا ہے، سوائے قتل کے مقدمات کے۔ تاہم، اس بیان کے باوجود سزائے موت میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ ان کے اصلاحاتی دعوے اب زیر سوال ہیں۔سعودی عرب میں سزائے موت کے بڑھتے ہوئے واقعات نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کے سوالات کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف سعودی ولی عہد ملک کو ایک کھلا اور ترقی یافتہ معاشرہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں، وہیں سزائے موت میں اضافے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹیں ان کے اصلاحات کے دعووں پر سوالیہ نشان بن چکی ہیں۔

سعودی عرب نے افغانستان میں اپنے سفارتی مشن کا آغاز کردیا

ہم جنس پرستوں کو سعودی عرب آنے کی اجازت

سعودی عرب بارے بیان، بشریٰ بی بی کیخلاف کئی شہروں میں مقدمے درج

ویڈیو:امریکی اداکارہ جینیفر لوپیز کی سعودی عرب میں بولڈ پرفارمنس،جلوے

Shares: